نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جنوری, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ہم کہاں سے آئے: چاول کی کہانی... وصی حیدر

  (35ویں وسط) 2011 میں ہندوستان کے جنوب مشرقی علاقہ سے متعلق ایک اہم بڑا تحقیقاتی مضمون چھپا۔ ڈینمارک کے مشہور جینیٹکس کے تحقیقاتی مرکز اور ان کے ساتھ دنیا کے 26 خاص انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے مل کر اس علاقہ کے پچھلے 8000 سال تک پرانے انسانی ڈھانچوں کا تجزیہ کیا۔ اس تحقیقات کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کے پچھلے 4000 ہزار سالوں میں اس علاقہ کی آبادی میں کئی بار بڑی تبدیلیاں ہوئیں اور یہ زیادہ تر چین سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے اس زمانے میں ہوئیں، جب چین میں کھیتی باڑی کا انقلاب آچکا تھا اور بڑھتی آبادی کی وجہ سے کچھ لوگ نئی جگہوں کی تلاش میں نکلے۔ ہم کہاں سے آے: آرین سے پہلے اور کون ہندوستان آیا، زبان کی کہانی... وصی حیدر 7500 قبل مسیح سے 3500  قبل مسیح تک چین کی یانگسی اور پیلی دریا کی وادی میں رہنے والے لوگ چاول اور باجرے کی فصل اگانا خوب اچھی طرح جان چکے تھے۔ چین سے ایشیا کے جنوب مشرقی علاقہ میں آنے والے لوگ زیادہ تر دو راستوں سے آئے۔ پہلا زمینی راستہ جس کے ساتھ اسٹرو اشیاٹک زبانیں اس علاقہ میں پھیلیں۔  دوسرا راستہ کچھ لوگ ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے تک چھوٹی چھوٹی ناؤ کے ذر...

پاکستانی سائنسدان کی ایجاد، چائے کی پتی سے الزائمر کی تشخیص

پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عنبر عباس برطانیہ میں نیو کاسل یونیورسٹی سے با حیثیت ریسرچ سکالر وابستہ ہیں۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ مشترکہ تحقیق میں چائے کی استعمال شدہ پتی کے 'پھوک‘ سے گریفین کوانٹم ڈاٹس تیار کیے ہیں، جنہیں پانی کے علاوہ انسانی جسم میں آئرن کی موجودگی کی شناخت کے لیے بطور سینسر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کوانٹم ڈاٹس کی تیاری کے لیے چائے کی پتی کا استعمال کیوں؟ ڈاکٹر عنبر عباس نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گریفین کو دنیا بھر میں طب خصوصاﹰ دوا سازی میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کی ٹیم کم خرچ اور ماحول دوست طریقے سے کوانٹم ڈاٹس بنانے کی خواہاں تھی جس کے لیے استعمال شدہ چائے کی پتی کا پھوک بہترین انتخاب تھا۔ چائے کی استعمال شدہ پتی کو یونہی پھینک دیا جاتا ہے حالانکہ یہ ری سائیکل کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر عباس مزید بتاتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے سائنسدانوں کی ٹیم نے سیاہ چائے کی پتی کو تقریبا 50 ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کیا۔ اگلے مرحلے میں اسے بلند درجہ حرارت میں 200 سے 250 سینٹی گریڈ ڈگری تک گرم کر کے اس میں آکسون کیمیکل شامل کیا گیا، ج...

ہم کہاں سے آے: آرین سے پہلے اور کون ہندوستان آیا، زبان کی کہانی... وصی حیدر

(34 ویں قسط) اسٹرو ایشیاٹک زبانیں ایشیا کے جنوب مشرقی علاقہ (تھائی ینڈ، لاؤس، مینمار، ملیشیا، بنگلہ دیش، نیپال، ویت نام، کمبوڈیا اور جنبوبی چین) سے پھیلیں اور یہ ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال اور چین کے جنوبی علاقہ میں اب بھی بولی جاتی ہیں اور دنیا میں ان کے بولنے والوں کی تعداد تقریباً بارہ کروڑ ہے۔ ہڑپا کا زوال: جنوبی ہندوستان کی طرف ہجرت... وصی حیدر ابھی تک ہم نے ہندوستان آنے والے صرف دو خاص بڑے گروپ کا ذکر کیا ہے جو آپس میں گھل مل گئے اور ہڑپا کی عظیم تہذیب کو جنم دیا اور موجودہ ہندوستانی آبادی کی بنیاد ڈالی: پہلا گروپ افریقہ سے آنے والے ہوموسیپینس کا ہے جو تقریباً 80 ہزار سال پہلے آئے اور چند ہزار سالوں میں ہندوستان کے مختلف حصّوں کو آباد کیا۔ 7000 قبل مسیح کے آس پاس ایران کے زرگوس پہاڑیوں کے آس پاس رہنے والے نئی نئی چراگاہوں کی تلاش میں ہندوستان کے شمال مغربی علاقہ میں آکر بسے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ کھیتی کے شروعاتی تجربے کی جانکاری لے کر آئے جس کا تجربہ یہاں بسے لوگ بھی کر رہے تھے۔ ان آنے والے لوگوں نے یہاں کے لوگوں کے ساتھ مل کر موجودہ پاکستان کے مہرگڑھ میں ایک نئی تہذیب کا بیج ڈال...

سوشل میڈیا کا بہتر استعمال، کیا نئے پلیٹ فارم مددگار ہوں گے؟

سوشل میڈیا کو چھوڑنا یا اس کا استعمال کم کرنا نئے سال کا ایک بہترین عہد ہو سکتا ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا کرنے سے جسمانی اور دماغی صحت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے مستقل یا عارضی طور پر انٹرنیٹ سے بریک لیا، جس سے ان کی پیداواری صلاحیت، ارتکاز اور خوشی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ لیکن یہ نام نہاد 'ڈیجیٹل ڈی ٹاکسنگ‘ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ دوستوں اور خاندان کے ساتھ جڑے رہنے جبکہ خبروں اور آن لائن مباحثوں کا حصہ بننے کا ایک آسان طریقہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تمام بڑے پلیٹ فارمز کے الگورتھم، جو صارفین کے ان ایپس پر گزارے جانے والے وقت کو بڑھانے کے لیے ہیں، انہیں تجارتی اور تفریحی تصاویر اور ویڈیوز کے بھنور میں پھنسا سکتے ہیں۔ ڈچ ڈاکٹر ایلسیلین کوپرز نے اس مسئلے کا یہ حل پیش کیا کہ انہوں نے ایک غیر تجارتی اور کم مقبول ایپ کا استعمال شروع کر دیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ میرے لیے پر سکون اور انتہائی خوشگوار تجربے کا باعث بنا ہے‘‘۔ کوپرز بی ریئل ایپ استعمال کرتی ہیں۔ اس ایپ کے یوزر ہر روز اپنی زندگی ...