نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

Qaumi Awaz لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

رازداری کا مقدمہ: ’سیری‘ سے متعلق کیس میں ایپل سمجھوتے پر آمادہ، صارفین کو ملے گا 8500 روپے تک معاوضہ

’ایپل‘(Apple) کو اپنی وائس اسسٹنٹ سروس ’سیری‘(Siri) کو لے کر امریکہ میں درج ایک مقدمے میں سمجھوتہ کرنا پڑا ہے۔ کمپنی پر الزام تھا کہ ’سیری‘ بغیر اجازت کے یوزرس کی نجی بات چیت ریکارڈ کرتی تھی۔ اس معاملے میں ’ایپل‘ اب قریب 790 کروڑ کا سیٹلمنٹ کرنے کو راضی ہو گیا ہے۔ اہل یوزرس کو 8500 روپے تک کا معاوضہ مل سکتا ہے۔ یہ مقدمہ 2019 میں درج کیا گیا تھا۔ الزام تھا کہ ’سیری‘ کئی بار بغیر کمانڈ کے خود بہ خود فعال ہو جاتی تھی اور یوزرس کی نجی بات چیت ریکارڈ کر لیتی تھی۔ ان میں کچھ ریکارڈنگس میں صحت سے جڑی جانکاری اور نجی بات چیت بھی شامل تھی، جنہیں مبینہ طور پر باہری کانٹریکٹرس کو بھیجا گیا تھا۔ حالانکہ ’ایپل‘ نے ان الزامات سے انکار کیا ہے، لیکن بغیر مقدمہ لڑے سمجھوتہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ’سیری‘ ہمیشہ سے یوزرس کی رازداری کا دھیان رکھتی ہے اور اس نے کبھی بھی ریکارڈنگس کو فروخت کرنے یا مارکیٹنگ کے لیے استعمال نہیں کیا۔  جس نے بھی 17 ستمبر 2014 سے 31 دسمبر 2024 کے درمیان ’ایپل‘ ڈیوائس پر ’سیری‘ کا استعمال کیا ہے، جس کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے ’سیری‘ ایکٹیویشن اور نجی بات چیت ر...

پیشاب اور گندے پانی سے سبز ہائیڈروجن! آسٹریلوی محققین کا سستا اور ماحول دوست نظام

آسٹریلیا کے محققین نے پیشاب اور گندے پانی سے سستی اور ماحول دوست سبز ہائیڈروجن پیدا کرنے کے لیے ایک نیا نظام تیار کیا ہے۔ ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک جدید نِکل فیرروسیانائیڈ کیٹالسٹ تیار کیا ہے جو یوریا سے ہائیڈروجن پیدا کرنے کے عمل کو زیادہ مؤثر اور توانائی کی بچت کے ساتھ ممکن بناتا ہے۔ روایتی طریقوں سے ہائیڈروجن کی پیداوار، جیسے پانی کی الیکٹرولائسز، مہنگی اور توانائی سے بھرپور ہوتی ہے۔ تاہم، یوریا (جو پیشاب میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے) کا استعمال اس عمل کو زیادہ سستا اور پائیدار بناتا ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یوریا کے استعمال سے ہائیڈروجن کی پیداوار کے لیے درکار توانائی میں 20 سے 30 فیصد تک کمی آتی ہے، اور اس سے پیدا ہونے والی ہائیڈروجن کی لاگت بھی کم ہوتی ہے۔ ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے محققین نے نِکل فیرروسیانائیڈ پر مبنی ایک نیا کیٹالسٹ تیار کیا ہے جو یوریا سے ہائیڈروجن پیدا کرنے کے عمل کو زیادہ مؤثر بناتا ہے۔ یہ کیٹالسٹ نہ صرف توانائی کی بچت کرتا ہے بلکہ گندے پانی میں موجود یوریا کی مقدار کو بھی کم کرتا ہے، جس سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی آتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی نہ ...

الیکٹرومیگنیٹک ویوز: نوعیت، خصوصیات اور فرق

الیکٹرومیگنیٹک ویو کی بات میں اپنے بچپن کی ایک کہانی سے شروع کرتا ہوں۔ جب میں چار پانچ سال کا تھا اور ہر طرح کی چیز کھانا شروع کی تو ہر چیز مختلف نظر آئی۔ مثلاً میں اس کا ذکر کروں کہ ایک سبزی ’آلو‘ دسیوں طریقوں سے کھایا جاتا ہے، جیسے آلو کا پراٹھا، آلو کی ترکاری، آلو کا بھرتا، گوشت کے ساتھ آلو، چپس، فرنچ فرائز وغیرہ وغیرہ۔ چند ہی سالوں بعد یہ سمجھ میں آیا کہ یہ سب مختلف چیزیں اپنے طریقوں میں الگ ہو سکتی ہیں، مگر سب کی اصل چیز ایک ہی ہے، یعنی آلو۔ بالکل اسی طرح آپ نے جو فرق سنے ہیں، جیسے ریڈیو ویوز، مائیکرو ویوز، انفرا ریڈ، لائٹ ویوز، الٹرا وائلٹ، ایکس ریز اور گاما ریز، یہ سب بھی دراصل ایک ہی طرح کی ویو ہیں اور سب ایک ہی رفتار سے خلا میں سفر کرتی ہیں۔ ان سب کو الیکٹرومیگنیٹک ویو کہا جاتا ہے اور یہ کسی بھی ویو کی طرح توانائی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہیں۔ ان سب میں ہمارا سب سے پسندیدہ حصہ سفید روشنی کا وہ حصہ ہے جس کی مدد سے ہم چیزوں کو دیکھ پاتے ہیں اور یہ روشنی سات رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے: وائلٹ، انڈیگو، بلو، گرین، یلو، اورنج اور ریڈ۔ ان تمام ویوز کا مختلف نام دینے کا مقصد یہ ...

مصنوعی ذہانت: تیز تر انسانی ترقی کی ضامن

انسانی ترقی کی رفتار لوگوں کی آزادی اور فلاح و بہبود کے پیمانے سے ناپی جاتی ہے۔کووڈ-19کی وبا کے بعد سے انسانی ترقی سست روی کا شکار ہے۔ اقوامِ متحدہ نے 6 مئی کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ لاکھوں زندگیاں بہتر بنانے کا ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کئی دہائیوں تک انسانی ترقی کے اشاریے مسلسل بہتری کی طرف گامزن رہے، اور اقوامِ متحدہ کے محققین نے پیش گوئی کی تھی کہ سال 2030 تک دنیا کی آبادی کو اعلیٰ سطح کی ترقی حاصل ہو جائے گی۔ تاہم، گزشتہ چند سالوں میں کووڈ۔19 جیسے غیر معمولی عالمی بحرانوں کے بعد یہ امیدیں معدوم ہوگئی ہیں اور دنیا بھر میں ترقی کا عمل رک گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کی جانب سے شائع ہونے والی سالانہ "ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ" کے مطابق امیر اور غریب ممالک کے درمیان عدم مساوات مسلسل چوتھے سال بڑھ رہی ہے۔ عالمی دباؤ، جیسے بڑھتی ہوئی تجارتی کشیدگیاں اور شدید قرضوں کا بحران، حکومتوں کی عوامی خدمات میں سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت کو محدود کر رہے ہیں، جس کے باعث ترقی کے روایتی را...

کائنات کے رازوں کی تلاش، ناسا کی اسفیرایکس دوربین کے ذریعے آسمان کی نقشہ سازی شروع

لاس اینجلس: امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی نئی خلائی آبزرویٹری اسفیرایکس (SPHEREx) نے باضابطہ طور پر اپنے سائنسی مشن کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ مشن کائنات کی ابتدا، کہکشاؤں کے ارتقاء اور زندگی کے بنیادی اجزاء کی تلاش میں اہم سنگِ میل ثابت ہوگا۔ ناسا نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اسفیرایکس آئندہ دو برسوں میں پورے آسمان کی جامع نقشہ سازی کرے گا، جس سے سائنسی برادری کو لیے غیر معمولی ڈیٹا حاصل ہوگا۔ اس خلائی دوربین کا باضابطہ لانچ 11 مارچ کو عمل میں آیا تھا، جس کے بعد اس نے چھ ہفتے آزمائش، کیلیبریشن اور دیگر تیاریوں میں گزارے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس کے تمام آلات مکمل فعالیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اب اسفیرایکس نے مکمل سائنسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے، جو ناسا کی خلائی تحقیق کے ایک نئے دور کی نمائندگی کرتا ہے۔ ناسا کے مطابق اسفیرایکس ہر روز تقریباً 3,600 تصاویر لے گا اور منظم انداز میں پورے آسمان کا سروے کرے گا۔ اپنے 25 ماہ کے مشن کے دوران یہ آبزرویٹری تقریباً گیارہ ہزار چکر مکمل کرے گی اور روزانہ ساڑھے 14 مرتبہ زمین کا چکر لگائے گی۔ یہ خلائی دوربین کائنات کا سہ جہتی نقشہ تیار کرے گی، جس ...

دن میں سب سے زیادہ گرمی تین بجے کیوں ہوتی ہے؟ ایک سائنسی وضاحت

دن کے سب سے گرم وقت کے بارے میں ہمارا عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ سہ پہر تقریباً تین بجے موسم سب سے زیادہ گرم محسوس ہوتا ہے، حالانکہ سورج کی روشنی سب سے زیادہ سیدھی دوپہر 12 بجے پڑتی ہے۔ یہ ایک دلچسپ مظہر ہے جس کی سائنسی بنیادیں ہیں۔ آئیے اس عمل کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سورج سے نکلنے والی روشنی میں قوس قزح کے تمام رنگ موجود ہوتے ہیں اور یہ روشنی تھوڑی مقدار میں الٹرا وائلٹ اور انفرا ریڈ شعاعوں پر بھی مشتمل ہوتی ہے۔ سورج کی سطح کا درجہ حرارت تقریباً 10,000 فارن ہائیٹ (یعنی 6000 ڈگری سینٹی گریڈ) ہے۔ اتنے زیادہ درجہ حرارت پر سورج سفید روشنی خارج کرتا ہے، جو زمین تک پہنچتی ہے۔ ہمارا کرۂ ہوائی سورج کی روشنی کے لیے تقریباً شفاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی زیادہ تر توانائی بغیر کسی رکاوٹ کے فضا سے گزر کر زمین تک پہنچ جاتی ہے اور زمین کی سطح کو گرم کرنا شروع کر دیتی ہے۔ خود ہوا براہ راست سورج کی شعاعوں سے زیادہ گرم نہیں ہوتی بلکہ زمین کے گرم ہونے کے بعد زمین سے خارج ہونے والی توانائی سے حرارت حاصل کرتی ہے۔ جب سورج افق پر نیچے ہوتا ہے، صبح یا شام کے وقت، تو اس کی شعاعیں ترچھی پڑتی ...

ڈیجیٹل دنیا: لڑکیوں کی ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی ضروری

ڈیجیٹل دنیا میں صنفی عدم مساوات کا خاتمہ کرنے کے لیے لڑکیوں کو ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی دینا ضروری ہے، اس کام کے لیے تعلیمی شعبے میں مزید سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ دنیا بھر میں پائی جانے والی ڈیجیٹل تفریق کے باعث ٹیکنالوجی کے میدان میں خواتین اور لڑکیوں کی کئی نسلوں کے پسماندہ رہ جانے کا خدشہ ہے۔ اس خدشہ کا اظہار ہنگامی حالات اور طویل بحرانوں میں تعلیم کی فراہمی پر اقوام متحدہ کے عالمی فنڈ 'ایجوکیشن کین ناٹ ویٹ' (تعلیم انتظار نہیں کر سکتی) کی ڈائریکٹر یاسمین شریف نے کیا ہے۔ انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشنز ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) یا معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کے شعبے میں لڑکیوں کے عالمی دن کے موقع پر انہوں نے کہا کہ مسلح تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور جبری نقل مکانی کا سامنا کرنے والے علاقوں میں یہ تقسیم اور بھی نمایاں ہے جسے ختم کرنے اور لڑکیوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں لڑکوں کے مساوی مواقع کی فراہمی کے لیے خاطر خواہ مالی وسائل کی دستیابی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس تبدیلی کے لیے تعلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے، لڑکیوں کو وہ تربیت، ہنر اور وسائل فراہم کیے جائیں جن کی انہیں ڈیجیٹل انقلاب کا...

کیا کائنات میں ہم جیسے اور بھی ہیں؟ زمین جیسے سیارے پر زندگی کے ممکنہ آثار

انسانی تاریخ میں زندگی کے سب سے بڑے سوالوں میں سے ایک یہ رہا ہے، کیا ہم اس وسیع کائنات میں اکیلے ہیں؟ قدیم زمانے سے ہی انسان نے آسمان کی وسعتوں میں جھانک کر اپنے جیسے کسی اور کے وجود کی تلاش کی ہے۔ جدید دور میں فلکیاتی سائنس نے اس تلاش کو ایک سائنسی بنیاد فراہم کی ہے اور حالیہ دنوں میں ایک اہم دریافت نے اس سوال کو ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنا دیا ہے، وہ ہے سیارہ کے2-18بی (K2-18b) پر زندگی کے ممکنہ آثار کی دریافت ہونا۔ ’کے2-18بی‘ ایک ایسا سیارہ ہے جو زمین سے تقریباً 124 نوری سال یعنی تقریباً 700 کھرب میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک سرخ بونے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے اور سائز کے اعتبار سے زمین سے ڈھائی گنا بڑا ہے۔ اس کی کمیت اور ساخت کے لحاظ سے یہ زمین اور نیپچون کے درمیان آتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ ایک ہائیسین ورلڈ (Hycean World) ہو سکتا ہے، یعنی ایسا سیارہ جس پر سمندر ہوں اور فضا میں ہائیڈروجن غالب ہو۔ یونیورسٹی آف کیمبرج کے سائنسدانوں نے ناسا کی جدید ترین جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کی مدد سے اس سیارے کی فضا کا تجزیہ کیا۔ یہ ٹیلی سکوپ اتنی حساس ہے کہ دور دراز سیاروں کی فضا سے گزرنے...

گوگل نے ڈیجیٹل اشتہارات میں غیر قانونی اجارہ داری قائم کی، امریکی عدالت کا فیصلہ

**واشنگٹن: امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ معروف ٹیکنالوجی کمپنی گوگل نے ڈیجیٹل اشتہارات کی مارکیٹ میں غیر قانونی طور پر اجارہ داری قائم کر کے ملک کے عدم اعتماد کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ فیصلہ امریکی محکمہ انصاف اور متعدد ریاستوں کے اس مقدمے کے تناظر میں سامنے آیا ہے جس میں گوگل پر الزام تھا کہ اس نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے آن لائن اشتہاری مارکیٹ پر قبضہ جما لیا ہے۔ ورجینیا کے مشرقی ضلع کی امریکی ضلعی عدالت کی طرف سے سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گوگل نے اپنے ایڈ ٹیک بزنس کے ذریعے ایسے حربے اپنائے جن سے پبلشرز، اشتہاری خریداروں اور بالآخر انٹرنیٹ صارفین کو نقصان پہنچا۔ عدالت نے واضح کیا کہ کمپنی کے طرز عمل سے "گوگل کے اشاعتی صارفین، مسابقتی عمل اور بالآخر، اوپن ویب پر اطلاعات کے صارفین متاثر ہوئے۔" محکمہ انصاف کی جانب سے جاری بیان میں اس فیصلے کو ڈیجیٹل اشتہارات کے میدان میں گوگل کی اجارہ داری کے خلاف تاریخی فتح قرار دیا گیا۔ امریکی اٹارنی جنرل پامیلا بونڈی نے کہا کہ "یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں، چاہے وہ ...

مصنوعی ذہانت کی پیش قدمی، سافٹ ویئر کی محدود ہوتی افادیت

ماضی میں جب صنعتی انقلاب آیا تو انسان نے پہلی بار یہ سیکھا کہ محض اپنے ہاتھوں اور جسمانی طاقت کے بجائے مشینوں کی مدد سے بھی بڑی سطح پر پیداوار ممکن ہے۔ پھر جب ڈیجیٹل انقلاب نے دستک دی تو دنیا کا رابطہ بدل گیا، معلومات کی ترسیل، لین دین، تعلیم، سیاست، معیشت، سب کچھ نئی شکل میں ڈھلنے لگا۔ اب جو انقلاب ہمارے دروازے پر آ چکا ہے، وہ نہ صرف پہلے دونوں انقلابات سے زیادہ تیز ہے بلکہ گہرے اور دور رس اثرات کا حامل بھی ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی کا انقلاب ہے، جو ہر شعبۂ حیات میں داخل ہو چکا ہے اور انسان کے ہر سوچنے، سمجھنے اور کرنے کے طریقے کو بدل رہا ہے۔ اب یہ سوال باقی نہیں رہا کہ اے آئی آئے گی یا نہیں، وہ آ چکی ہے۔ اصل سوال اب یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کتنے تیار ہیں؟ حال ہی میں اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹ مین کا بیان آیا کہ سافٹ ویئر انجینئروں کی نوکریاں خطرے میں ہیں اور انہیں اس تبدیلی کے لیے خود کو پہلے سے تیار کر لینا چاہیے۔ یہ صرف انجینئروں کی بات نہیں، دنیا بھر میں جہاں جہاں کوئی کام ایک خاص ترتیب، ایک مخصوص فارمولے یا طے شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر انجام دیا جاتا ہے، وہاں اے آئی کا عمل دخل...

یہ ترقی کس کے لئے سودمند ہوگی!

دنیا کی نظریں اس وقت امریکی صدر کی نئی ٹیرف پالیسی پر لگی ہوئی ہیں، مسلم دنیا کی نظریں قطر کے حماس اور نیتن یاہو سے رشتے پر گڑی ہوئی ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کی نظریں وقف ترمیمی بل کے مستقبل کو لے کر بے چینی سے انتظار کر رہی ہیں اور ہندوستانی عوام کی نظریں راہل گاندھی کی بہار یاترا اور احمد آباد اجلاس پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں یہ موضوعات انتہائی اہم ہیں اور ان کے اثرات دنیا کے کسی نہ کسی کونے پر نظر آئیں گے لیکن اگر ہم مستقبل کی بات کریں تو جس تیزی کے ساتھ دنیا میں سائنسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس نے آنکھیں ہوتے ہوئے بھی عام لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت نے پہلے ہی ایک بڑی تعداد کو بے روزگار کرنا شروع کر دیا ہے اور جس بڑی تعداد میں انسانی روبوٹس دنیا میں آ رہے ہیں اس نے سب کو حیرانی میں ڈال دیا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ سائنس میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں اس سے اب طے کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے کہ آگے کس راستے پر چلنا ہے، بہت ہی کنفیوژن ہے۔ یہ کنفیوژن اس لئے ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سفر کا آغاز ہے اور انسانی روبوٹس کس کس شعبہ میں اپنی دخل اندازی کرے گا اس کا کسی کو علم نہیں ہ...

گرمی اور رنگ کا تعلق: نیلا سب سے گرم، لال سب سے ٹھنڈا!

ہم سب جانتے ہیں کہ جب کسی چیز کو گرم کیا جاتا ہے تو اس سے روشنی یا ریڈی ایشن خارج ہوتی ہے۔ مثلاً جب کوئی لوہار لوہے کے سیاہ ٹکڑے کو بھٹی میں گرم کرتا ہے تو جیسے جیسے اس کا درجہ حرارت بڑھتا ہے، اس سے نارنجی، پھر لال اور آخر میں سفید رنگ کی روشنی نکلتی ہے۔ سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی چیز سے خارج ہونے والی روشنی کا اس کے درجہ حرارت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ بات عمومی مشاہدے کا حصہ ہے، لیکن اس کی سائنسی تفصیل کو جاننا بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اسی سمجھ نے نہ صرف ہمیں ستاروں کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کیں بلکہ بیسویں صدی کے کوانٹم انقلاب کی بنیاد بھی رکھی۔ جب کسی شے کو گرم کیا جاتا ہے تو وہ برقی مقناطیسی شعاعیں (ایکٹرومیگنیٹک ریڈیشن) خارج کرتی ہے۔ جتنا درجہ حرارت کم ہوگا، اتنی ہی زیادہ طول موج (ویو لینتھ) کی شعاعیں خارج ہوں گی۔ مثلاً، اگر کوئی شے بہت ٹھنڈی ہو اور ہم اسے گرم کریں تو وہ ریڈیو ویوز خارج کرے گی۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری کائنات کا اوسط درجہ حرارت تقریباً 3 کیلون ہے، جس کے باعث مائیکرو ویوز ہر سمت خارج ہو رہی ہیں۔ یہ مائیکرو ویوز 1964 میں حادثاتی طور پر د...

ایٹم اور مالیکیول: حیرت انگیز طور پر نہایت چھوٹی مگر طاقتور دنیا

ہم سب جانتے ہیں کہ ایٹم اور مالیکیول اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ انسانی آنکھ انہیں نہیں دیکھ سکتی۔ ایٹم کی موجودگی کا سائنسی ثبوت بیسویں صدی کے اوائل میں مشہور سائنسدان آئنسٹائن نے پیش کیا تھا، حالانکہ ایٹم کا تصور بہت پرانا ہے۔ یونانی زبان میں ’ایٹم‘ کا مطلب ہے ’ناقابل تقسیم‘، کیونکہ قدیم دور میں سمجھا جاتا تھا کہ یہ کسی بھی مادے کا سب سے چھوٹا حصہ ہے، جسے مزید تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن سائنس نے اس تصور کو غلط ثابت کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایٹم کے اندر بھی ایک حیرت انگیز دنیا موجود ہے۔ ایٹم کچھ حد تک ہمارے نظامِ شمسی سے مشابہ ہے۔ اس کے مرکز میں ایک نیوکلئیس ہوتا ہے، جس میں پروٹان اور نیوٹران موجود ہوتے ہیں، جبکہ الیکٹران سیاروں کی طرح اس کے گرد گردش کرتے ہیں۔ سائنس دانوں نے ایٹم کے مزید چھوٹے اجزاء کو دریافت کیا، مگر ’ایٹم‘ کی اصطلاح کو برقرار رکھا۔ ایٹم مل کر مالیکیول بناتے ہیں۔ ایک مالیکیول ایک یا ایک سے زائد ایٹموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ مثلاً پانی کا مالیکیول دو ہائیڈروجن اور ایک آکسیجن ایٹم سے مل کر بنتا ہے۔ اسی طرح کھانے کے نمک کا مالیکیول سوڈیم اور کلورین ایٹم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ...

سنیتا ولیمز اور بوچ ولمور کی 9 ماہ بعد زمین پر واپسی، صحت کے نئے چیلنجز کا سامنا

امریکی خلا باز سنیتا ولیمز اور بوچ ولمور 9 ماہ کے طویل خلائی مشن کے بعد زمین پر بحفاظت واپس آ گئے ہیں۔ یہ دونوں خلاباز 5 جون 2024 کو بوئنگ اسٹار لائنر کیپسول کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر پہنچے تھے۔ ان کا مشن دراصل 10 دن کا تھا لیکن کیپسول میں تکنیکی خرابیوں کے باعث انہیں طویل عرصہ خلا میں گزارنا پڑا۔ طویل عرصے تک مائیکرو گریوٹی میں رہنے کی وجہ سے سنیتا ولیمز اور بوچ ولمور کو صحت کے مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ ناسا کے سابق خلا باز لیرو چیو کے مطابق، خلا میں زیادہ دیر تک رہنے کی وجہ سے خلابازوں کو ’بچوں کی طرح کے پاؤں‘ (بیبی فیٹ) کا تجربہ ہوتا ہے، جس میں پیروں کے تلووں کی موٹی جلد ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، زمین پر واپس آنے پر چکر آنا یا متلی جیسے مضر اثرات بھی عام ہیں۔ خلاباز ٹیری ورٹس کے مطابق، خلا سے واپسی پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فلو ہو رہا ہو، اور توازن برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ مائیکرو گریوٹی میں خلاباز تیرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے پیروں پر دباؤ نہیں پڑتا، اور ایڑیوں کی موٹی جلد وقت کے ساتھ نرم ہو جاتی ہے۔ زمین پر واپس آ کر، فوری طور پر کشش ثقل کا احساس ...

پانی کی عجیب داستان اور گلوبل وارمنگ... وصی حیدر

برف پانی پر کیوں تیرتی ہے؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ برف پانی سے ہلکی ہے، یعنی اس کا ڈینس (کثافت) کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کے ہر وہ چیز جو پانی سے کم ڈینس والی ہوگی، وہ پانی میں تیرے گی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوہا اور اسٹیل کا ڈینس پانی سے بہت زیادہ ہوتا ہے، پھر بھی لوہے یا اسٹیل سے تیار پانی کا جہاز پانی میں خوب تیرتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر مکمل شئے کی کثافت پانی سے کم ہو تو وہ پانی میں تیرنے لگے گی چاہے اس کا کچھ حصّہ اسٹیل یا کسی اور بھاری چیز سے کیوں نہ تیار ہوا ہو۔ لوہے سے بنا پانی کا جہاز پورا لوہے کا نہیں ہوتا۔ اس کے نیچے کا حصّہ ’Hull‘ خالی ہوتا ہے، جس میں صرف ہوا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے پورے جہاز کی کثافت پانی سے کم ہو جاتی ہے۔ آپ بازار سے گھر کے لیے اگر ایک تربوز لائیں تو وہ آپ کو بہت بھاری لگتا ہے۔ لیکن اگر آپ تربوز کو پانی میں ڈالیں تو وہ تیرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ پانی سے ہلکا یا کم کثافت والا ہے۔ ایک اور بھاری چیز جو سب نے دیکھی ہوگی، وہ ہے کسی پرانے درخت کا کٹا ہوا تنا (ڈنڈی)۔ وہ بھاری ہوتا ہے، لیکن اس کو بھی اگر پانی میں ڈالیں تو وہ  ت...

ہارورڈ کے سائنسداں نے ریاضی کے فارمولہ سے اللہ کے وجود کو کیا ثابت!

اکثر لوگوں کو یہی کہتے سنا جاتا ہے کہ ریاضی اور مذہب میں کوئی کنکشن نہیں ہے۔ سائنس اور مذہب کو بھی لوگ آپس میں غیر منسلک قرار دیتے رہے ہیں۔ لیکن کیا آپ اس بات کا تصور کر سکتے ہیں کہ ایک سائنسداں نے ریاضی کے فارمولہ سے اللہ کے وجود کو ثابت کیا ہے۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا ہے ہارورڈ کے سائنسداں ڈاکٹر وِلی سون نے۔ ڈاکٹر سون کے مطابق ریاضی کا ایک فارمولہ بتاتا ہے کہ حقیقی معنوں میں کوئی ہے جس نے اس کائنات کو انتہائی منظم طریقے سے بنایا ہے۔ ایک نیوز پورٹل پر شائع رپورٹ کے مطابق سائنسداں ڈاکٹر وِلی سون نے ٹکر کارلسن نیٹورک میں بات کی۔ اس دوران انھوں نے فائن ٹیوننگ دلیل پر بحث کی۔ یہ فائن ٹیوننگ دلیل بتاتی ہے کہ کائنات لوگوں کے لیے زندگی گزارنے کے مقصد سے انتہائی منظم انداز میں ڈیزائن کی گئی ہے، اور یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر سون نے اپنے عمل میں ’فائن ٹیوننگ دلیل‘ کا استعمال ضرور کیا ہے، لیکن سب سے پہلے کیمبرج کے ریاضی داں پال ڈیراک کے مجوزہ فارمولہ نے اس بات پر روشنی ڈالی تھی۔ ریاضی سے خدا کے ہونے کا اشار ملتا ہے، اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ڈاکٹر سون نے 1963 کے ڈیراک کے الفا...

اسپیس ایکس کے اسٹارشپ کی آٹھویں ٹیسٹ پرواز ناکام، لانچ کے چند منٹ بعد ہوا تباہ

ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس کو جمعرات کو اپنے میگا راکٹ اسٹارشپ کی آٹھویں آزمائشی پرواز کے دوران ایک اور دھچکا لگا۔ لانچ کے چند منٹ بعد ہی اسٹارشپ سے رابطہ منقطع ہو گیا، جس کے نتیجے میں راکٹ آسمان میں ہی تباہ ہو گیا۔ کمپنی کے براہ راست نشریاتی فیڈ میں دکھایا گیا کہ انجن بند ہونے کے بعد اسٹارشپ قابو سے باہر ہو گیا اور پھٹ گیا۔ لانچ کے کچھ ہی دیر بعد، سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں جنوبی فلوریڈا اور بہاماس کے قریب آسمان میں آگ کے شعلوں کی صورت میں ملبہ گرتے دیکھا گیا۔ تاہم، اسپیس ایکس نے اس مشن کو مکمل طور پر ناکام قرار نہیں دیا۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس دوران سپر ہیوی بوسٹر نے کامیابی سے کام کیا اور قیمتی ڈیٹا حاصل ہوا، جو مستقبل میں اس نظام کی بہتری کے لیے استعمال ہوگا۔ اسپیس ایکس نے 7 مارچ کو ٹیکساس کے بوکا چیکا میں اپنے لانچ پیڈ سے اسٹارشپ کو لانچ کیا۔ ابتدائی طور پر سب کچھ معمول کے مطابق رہا اور سپر ہیوی بوسٹر نے کامیابی سے اپنا کام انجام دیا۔ لانچ کے بعد بوسٹر نے اسٹارشپ سے خود کو الگ کر لیا اور کمپنی کے مطابق، وہ متوقع طریقے سے سمندر میں جا گرا۔ کمپنی نے اس حصے کو کامیا...

لیپ سال: اضافی دن کا راز اور تاریخ...وصی حیدر

ہم میں سے بہت سے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ ہر چوتھے سال فروری میں 29 دن کیوں ہوتے ہیں۔ اسے لیپ ڈے کے نام سے جانا جاتا ہے اور جب ہم فروری کے مہینے میں اس اضافی دن کو شامل کرتے ہیں تو اسے لیپ سال کہتے ہیں۔ اس طرح، لیپ سال میں ہمارے پاس عام 365 دنوں کے بجائے 366 دن ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طاقتور لوگوں کا کوئی خفیہ گروپ ہے جو ہر چار سال کے بعد ایک دن کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کی سائنسی اور فلکیاتی وجوہات ہیں۔ زمین کا اپنی دھری پر پورا ایک چکر گھومنے کو ہم ایک دن کہتے ہیں اور زمین کا سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرنے کو ہم ایک سال کہتے ہیں۔ ایک دن اور ایک سال کی وجہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ قدرت کا کوئی قانون نہیں ہے کہ سال پورے دنوں میں تقسیم ہی ہونا چاہیے۔ درحقیقت، ہماری زمین سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں 365 دنوں کے علاوہ تقریباً 6 گھنٹے زیادہ لیتی ہے۔ لہذا اگر ہمارے کیلنڈر میں صرف 365 دن ہوتے تو یہ 6 گھنٹے ہر سال شامل ہونے کے بجائے ضائع ہو جاتے۔ ہر چار سال بعد یہ اضافی گھنٹے تقریباً 24 گھنٹے یعنی پورے ایک دن کے برابر ہو جاتے ہیں، اس لیے اس دن کو فر...

مشکل میں اسرو کا 100واں مشن، آئیے ڈالتے ہیں اسرو کے 5 کامیاب اور 5 ناکام مشن پر ایک نظر

انڈین اسپیس ریسرچ آرگانئزیشن (اسرو) اب تک خلا میں کئی دفعہ اپنی کامیابی کا پرچم لہرا چکا ہے۔ چند روز قبل اسرو کا 100 واں راکٹ مشن بھی کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا تھا، لیکن اب یہ مشن مشکل میں نظر آ رہا ہے۔ اس مشن کے تحت لانچ کیا گیا نیویگیشن سیٹلائٹ تکنیکی خرابی کا شکار ہو گیا ہے۔ اسرو نے اپنی ویب سائٹ پر اس حوالے سے کہا کہ سیٹلائٹ کو آربٹ میں رکھنے کا عمل مکمل نہیں ہو سکا کیونکہ تھرسٹر کو فائر کرنے کے لیے ضروری آکسیڈائزر کے داخلے کی اجازت دینے والے وَالو کھلے ہی نہیں۔ واضح ہو کہ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے جب اسرو کے سامنے مشکل آئی ہو۔ اس سے قبل بھی ایسی مشکلات آتی رہی ہیں، وہیں کئی بڑے بڑے مشن میں کامیابی بھی ملی ہے۔ آئیے ذیل میں اسرو کے 5 کامیاب اور 5 ناکام مشن کے بارے میں جانتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم ذکر کرتے ہیں اسرو کے 5 کامیاب مشن کا: 1- سال 1975 میں آریہ بھٹ سیٹلائٹ سے کی شروعات: عظیم ہندوستانی ماہر فلکیات آریہ بھٹ کے نام پر اسرو نے آریہ بھٹ نام کا پہلا سیٹلائٹ تیار کیا تھا۔ اس کی مینوفیکچرنگ سے لے کر ڈیزائننگ اور اسمبلی تک کا کام، مکمل طور پر ہندوستان میں ہی کیا گیا تھا۔ 360 کلو...

علاءدین کا چراغ اور ہمارا سورج

نیوٹن کی پیدائش سے کئی سو سال پہلے، گرمیوں کے ایک دن علاالدین اپنے اونٹ پر چراغ کے ساتھ عرب کے ریگستان میں گھومنے کے بعد ایک کھجور کے درخت کے سائے میں آرام کرنے لگا۔ دھوپ تیز تھی اور گرمی زیادہ، جس سے علاالدین کو لو لگ گئی اور طبیعت خراب ہو گئی۔ جب طبیعت سنبھلی تو اس نے چراغ رگڑ کر جن کو بلایا اور حکم دیا کہ سورج کے ہر ذرّے کو بکھیر دو تاکہ یہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ جن نے اسے سمجھایا کہ سورج کے بغیر زمین پر زندگی ناممکن ہو جائے گی، مگر علاالدین اپنی ضد پر قائم رہا۔ فرض کریں کہ جن کے پاس بے پناہ طاقت ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج کو ختم کرنے کے لیے اسے کتنی توانائی درکار ہوگی؟ سورج ایک گیسوں کا گولہ ہے جس نصف قطر تقریباً سات لاکھ کلومیٹر ہے اور وزن 2 کے بعد 30 صفر کلوگرام۔ سورج زمین سے 3 لاکھ 33 ہزار گنا بھاری ہے اور پورے نظام شمسی کے وزن کا 99 فیصد ہے۔ سورج کے ہر ذرّے کو بکھیرنے کے لیے جن کو کشش ثقل کے خلاف کام کرنا ہوگا۔ سائنس دانوں کے مطابق، اس کے لیے جن کو 2 کے بعد 41 صفر جول توانائی خرچ کرنا ہوگی۔ یہ توانائی اتنی زیادہ ہے کہ اسے انسانی پیمانے پر تصور کرنا مشکل ہے۔ مثال ...