نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مصنوعی ذہانت کی پیش قدمی، سافٹ ویئر کی محدود ہوتی افادیت

ماضی میں جب صنعتی انقلاب آیا تو انسان نے پہلی بار یہ سیکھا کہ محض اپنے ہاتھوں اور جسمانی طاقت کے بجائے مشینوں کی مدد سے بھی بڑی سطح پر پیداوار ممکن ہے۔ پھر جب ڈیجیٹل انقلاب نے دستک دی تو دنیا کا رابطہ بدل گیا، معلومات کی ترسیل، لین دین، تعلیم، سیاست، معیشت، سب کچھ نئی شکل میں ڈھلنے لگا۔

اب جو انقلاب ہمارے دروازے پر آ چکا ہے، وہ نہ صرف پہلے دونوں انقلابات سے زیادہ تیز ہے بلکہ گہرے اور دور رس اثرات کا حامل بھی ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی کا انقلاب ہے، جو ہر شعبۂ حیات میں داخل ہو چکا ہے اور انسان کے ہر سوچنے، سمجھنے اور کرنے کے طریقے کو بدل رہا ہے۔

اب یہ سوال باقی نہیں رہا کہ اے آئی آئے گی یا نہیں، وہ آ چکی ہے۔ اصل سوال اب یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کتنے تیار ہیں؟ حال ہی میں اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹ مین کا بیان آیا کہ سافٹ ویئر انجینئروں کی نوکریاں خطرے میں ہیں اور انہیں اس تبدیلی کے لیے خود کو پہلے سے تیار کر لینا چاہیے۔

یہ صرف انجینئروں کی بات نہیں، دنیا بھر میں جہاں جہاں کوئی کام ایک خاص ترتیب، ایک مخصوص فارمولے یا طے شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر انجام دیا جاتا ہے، وہاں اے آئی کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک طویل عرصے سے یہ سمجھا جاتا رہا کہ انسانی تخلیقی صلاحیت، فیصلہ سازی اور جذبات ایسی چیزیں ہیں جنہیں کوئی مشین چھو بھی نہیں سکتی، مگر اب وہ لمحہ آ گیا ہے جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ اے آئی نہ صرف معلومات پر مبنی فیصلہ کر رہی ہے بلکہ وہ انسانی مزاج، لہجہ اور ارادے کو بھی سمجھنے لگی ہے۔

اکثر لوگ اس انقلاب کا موازنہ موبائل فون کے ساتھ کرتے ہیں، جو یقیناً زندگی میں سہولتوں کا بڑا ذریعہ بنا، مگر سچ یہ ہے کہ موبائل نے انسان کا طرز زندگی اتنا نہیں بدلا جتنا اے آئی کرنے جا رہی ہے۔ موبائل نے رابطے آسان کیے، چیزوں کو قریب لایا لیکن اے آئی انسان کے سوچنے کے عمل میں مداخلت کر رہی ہے۔ وہ اسے یہ نہیں بتاتی کہ ’کیا کرنا ہے‘، بلکہ یہ طے کرتی ہے کہ ’کیسے سوچا جائے!‘

پہلے ہم جن کاموں کے لیے خاص سافٹ ویئر استعمال کرتے تھے، اب وہی کام خودکار طریقے سے ایک ہی پلیٹ فارم پر بغیر وقت ضائع کیے انجام پا رہے ہیں۔ تصویری تدوین ہو، مضمون نویسی، ویڈیو ایڈیٹنگ، ڈیٹا اینالسس، یا آواز سے ٹیکسٹ بنانا، یہ سب ایک لمحہ میں انجام پاتا ہے، وہ بھی بغیر سیکھے۔

یہی وجہ ہے کہ کئی ایسے مشہور سافٹ ویئر جو ایک وقت میں ناگزیر سمجھے جاتے تھے، آج صرف مخصوص پیشہ ور افراد تک محدود ہو گئے ہیں، یا ان کے لیے متبادل اے آئی ٹولز تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فوٹوشاپ، کورل ڈرا، فائنل کٹ، پاور پوائنٹ، ان پیج، آٹو کیڈ، یا یہاں تک کہ ایکسل جیسے پروگرام بھی، جنہیں سیکھنے اور سکھانے پر برسوں صرف کیے جاتے تھے، اب ان کی جگہ ایسے اے آئی پلیٹ فارم لے رہے ہیں، جو نہ صرف ان سے تیز ہیں بلکہ صارف کے لیے آسان بھی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مستقبل میں ان سافٹ ویئرز کی مکمل یا جزوی افادیت ختم ہو جانے کا خدشہ ہے۔ اس انقلاب نے نہ صرف سافٹ ویئرز کو بے مصرف یا محدود کیا ہے بلکہ انسان کے کام کرنے کے انداز کو بھی بدل دیا ہے۔ اب ہر شخص، چاہے وہ تعلیم سے وابستہ ہو یا طب سے، صحافت سے ہو یا قانون سے، محسوس کر رہا ہے کہ اس کے کام کی نوعیت بدل رہی ہے۔ کچھ کے لیے یہ تبدیلی سہولت ہے، کچھ کے لیے خوف اور کچھ کے لیے موقع۔

سوال یہ نہیں کہ اے آئی کیا چھین لے گی، بلکہ یہ ہے کہ ہم کیا نیا سیکھنے کو تیار ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے پرانے تجربے اور مہارت کے بل پر ہمیشہ کامیاب رہیں گے، وہ شاید آنے والے وقت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اے آئی کا اثر صرف پیشہ ورانہ دنیا تک محدود نہیں رہے گا۔ گھریلو زندگی، سماجی رشتے، تعلیم، تفریح، یہاں تک کہ مذہبی و ثقافتی طور طریقے بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ اگر کل کوئی بچہ اے آئی سے قرآن پڑھنا سیکھ رہا ہوگا یا کوئی بزرگ اپنی طبیعت کے مطابق اے آئی سے دعا سن رہا ہوگا تو اس پر حیرانی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے ہم نظریں نہیں چرا سکتے۔

ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اے آئی نہ صرف ہماری سوچ بدل رہی ہے بلکہ ہماری ترجیحات بھی تبدیل کر رہی ہے۔ انسان وہی کام کرنا چاہتا ہے جس میں کم محنت ہو، جلدی فائدہ ہو اور نتیجہ فوری نظر آئے۔ اے آئی اسے یہ سب فراہم کر رہی ہے، مگر اس کے بدلے ہم سے کیا لے رہی ہے، یہ ہم میں سے اکثر نے سوچا بھی نہیں۔ شاید ہمارے فیصلوں کا اختیار، ہماری تخلیق کی آزادی یا ہماری اجتماعی عقل۔

یہ انقلاب کسی کے رکنے سے رکے گا نہیں۔ یہ نہ تو جغرافیائی سرحدوں کا محتاج ہے اور نہ ہی کسی خاص طبقے یا معاشرے کا۔ یہ ہر اس شخص کو چھوئے گا جو اس دنیا کا حصہ ہے، جو روز کچھ سیکھتا، کچھ سوچتا اور کچھ کرتا ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم اس تبدیلی کا سامنا آنکھیں کھول کر کریں گے یا آنکھ بند کر کے۔ وقت تیز ہو چکا ہے، لہٰذا جو جتنا جلدی خود کو بدلنے کے لیے تیار ہو جائے گا، وہی اس انقلاب میں محفوظ، باوقار اور مؤثر رہے گا۔ باقی سب، چاہے وہ کتنے ہی کامیاب کیوں نہ رہے ہوں، پیچھے رہ جائیں گے۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/Paun4jM

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...