نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

علاءدین کا چراغ اور ہمارا سورج

نیوٹن کی پیدائش سے کئی سو سال پہلے، گرمیوں کے ایک دن علاالدین اپنے اونٹ پر چراغ کے ساتھ عرب کے ریگستان میں گھومنے کے بعد ایک کھجور کے درخت کے سائے میں آرام کرنے لگا۔ دھوپ تیز تھی اور گرمی زیادہ، جس سے علاالدین کو لو لگ گئی اور طبیعت خراب ہو گئی۔ جب طبیعت سنبھلی تو اس نے چراغ رگڑ کر جن کو بلایا اور حکم دیا کہ سورج کے ہر ذرّے کو بکھیر دو تاکہ یہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

جن نے اسے سمجھایا کہ سورج کے بغیر زمین پر زندگی ناممکن ہو جائے گی، مگر علاالدین اپنی ضد پر قائم رہا۔ فرض کریں کہ جن کے پاس بے پناہ طاقت ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج کو ختم کرنے کے لیے اسے کتنی توانائی درکار ہوگی؟

سورج ایک گیسوں کا گولہ ہے جس نصف قطر تقریباً سات لاکھ کلومیٹر ہے اور وزن 2 کے بعد 30 صفر کلوگرام۔ سورج زمین سے 3 لاکھ 33 ہزار گنا بھاری ہے اور پورے نظام شمسی کے وزن کا 99 فیصد ہے۔ سورج کے ہر ذرّے کو بکھیرنے کے لیے جن کو کشش ثقل کے خلاف کام کرنا ہوگا۔ سائنس دانوں کے مطابق، اس کے لیے جن کو 2 کے بعد 41 صفر جول توانائی خرچ کرنا ہوگی۔

یہ توانائی اتنی زیادہ ہے کہ اسے انسانی پیمانے پر تصور کرنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم زمین پر موجود تمام جوہری بموں کی طاقت کو اکٹھا کریں، تب بھی وہ توانائی سورج کو بکھیرنے کے لیے ناکافی ہوگی۔ یہ توانائی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ سورج کتنا مستحکم اور طاقتور ہے۔

جن نے جیسے ہی سورج کو بکھیرنے کا کام مکمل کیا، دنیا میں اندھیرا چھا گیا، ٹھنڈ بڑھ گئی اور پودے مرجھا گئے۔ سورج کی روشنی زمین تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لیتی ہے، لہٰذا اثرات فوراً نظر نہیں آئے۔ آٹھ منٹ کے بعد زمین پر مکمل تاریکی چھا گئی، درجہ حرارت تیزی سے نیچے گرنے لگا، سمندر جمنا شروع ہو گئے اور ہواؤں کی گردش رک گئی۔

علاالدین کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے جن کو حکم دیا کہ سورج کے ذرّات دوبارہ اکٹھے کر دے۔ جب جن نے سورج کے ذرّات کو جمع کرنا شروع کیا، تو اس نے دیکھا کہ کشش ثقل کی وجہ سے یہ ذرّات خود بخود ایک مرکز کی طرف واپس اکٹھے ہو رہے تھے۔ نیوٹن کے قوانین حرکت اور کشش ثقل کے مطابق، کسی بھی چیز پر قوت لگنے سے اس کی رفتار میں تبدیلی آتی ہے۔ یہی قوت سورج کے بکھرے ہوئے ذرّات کو واپس اکٹھا کر رہی تھی۔

سائنس دانوں کے مشاہدات کے مطابق، یہی عمل ستاروں کی تشکیل کا ذریعہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج کے ذرّات کو اکٹھا کرنے میں کشش ثقل نے جو کام کیا، وہ توانائی کہاں گئی؟ اٹھارویں صدی کے سائنس دانوں لارڈ کیلون اور ہیلمہولٹز نے تجویز پیش کی کہ سورج کی گرمی اور روشنی، دراصل کشش ثقل کے کام کی توانائی ہے۔

یہ عمل یوں ہوتا ہے کہ بکھرے ہوئے ذرّات کشش ثقل کی وجہ سے اکٹھے ہوتے ہیں، ان کی رفتار بڑھتی ہے اور وہ گرم اور روشن ہو جاتے ہیں۔ درجہ حرارت کا تعلق ذرّات کی رفتار سے ہے۔ زیادہ درجہ حرارت کا مطلب زیادہ رفتار۔ جب ہم پانی گرم کرتے ہیں تو اصل میں اس کے مالیکیولز کی رفتار بڑھا رہے ہوتے ہیں۔

سورج کے اندرونی حصے کا درجہ حرارت تقریباً 15 ملین ڈگری سینٹی گریڈ ہے جبکہ سطح پر یہ 5500 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اتنی گرمی کے دو اثرات ہوتے ہیں: ایک تو یہ کہ ذرّات باہر کی طرف پھیلنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ کشش ثقل انہیں اندر کی طرف کھینچتی ہے۔ جب تک یہ قوتیں برابر رہتی ہیں، سورج مستحکم رہتا ہے۔

دوسرا اثر یہ ہے کہ سورج کی توانائی روشنی اور گرمی کی صورت میں خارج ہوتی ہے، جو زمین پر زندگی کو ممکن بناتی ہے۔ کیلون اور ہیلمہولٹز کی تجویز کے مطابق، سورج کی چمک کشش ثقل کی توانائی کا نتیجہ ہے۔ تاہم، اس نظریے کی جانچ کے لیے سائنس دانوں نے سورج سے نکلنے والی توانائی کی مقدار ناپی اور سورج کی عمر کا اندازہ لگایا۔

اس حساب سے سورج کی عمر صرف 3 کروڑ سال بنتی تھی، جبکہ زمین کی عمر تقریباً 4.54 ارب سال ہے۔ یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ سورج کی توانائی کا ذریعہ صرف کشش ثقل نہیں ہے۔ بیسویں صدی میں نیوکلیئر فزکس کی ترقی نے ثابت کیا کہ سورج کی توانائی کا اصل راز نیوکلیئر فیوژن ہے۔

سورج کے مرکز میں، انتہائی درجہ حرارت اور دباؤ کے باعث ہائیڈروجن کے ایٹم آپس میں مل کر ہیلیم بناتے ہیں، جس سے بڑی مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے۔ یہی عمل سورج اور دیگر ستاروں کی روشنی اور گرمی کا ذریعہ ہے۔

نیوکلیئر فیوژن کے اس عمل میں توانائی کا ایک حصہ روشنی اور حرارت کی صورت میں خارج ہوتا ہے، جبکہ باقی توانائی سورج کے اندرونی دباؤ کو مستحکم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ سورج کی سطح سے نکلنے والی روشنی کا ہر فوٹون ایک طویل سفر طے کرتا ہے، جو لاکھوں سالوں پر محیط ہوتا ہے، تب جا کر وہ زمین تک پہنچتا ہے۔

یوں علاالدین اور اس کے جن کی کہانی ہمیں نہ صرف کشش ثقل اور توانائی کے اصول سمجھاتی ہے بلکہ یہ بھی سکھاتی ہے کہ قدرت کے نظام کو سمجھنے کے لیے سائنسی تحقیق اور تجربات کتنے ضروری ہیں۔ سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کائنات کے ہر عمل کے پیچھے ایک منطقی وجہ ہوتی ہے، جسے سمجھنے کے لیے علم اور تحقیق کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔

یہ کہانی ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ فطرت کے نظام میں توازن کی کتنی اہمیت ہے۔ ایک چھوٹا سا بگاڑ پوری زمین کو متاثر کر سکتا ہے۔ سورج نہ صرف روشنی اور گرمی کا ذریعہ ہے بلکہ زمین پر زندگی کے تسلسل کا ضامن بھی ہے۔ لہٰذا، سائنس اور فطرت کے اصولوں کو سمجھنا اور ان کا احترام کرنا ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/XiED95C

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...