نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امبر کی کہانی اور بجلی کا نام الیکٹریسٹی کیسے پڑا؟

بجلی کا زیور سے کیا تعلق ہے؟ میرے ساتھ اس سفر پر چلیں، تو آپ بہت کچھ نیا دیکھیں گے۔ دیوتا، بھیڑ، کڑکتی بجلی، وہ لڑکی جو پیڑ بن گئی، اپنی صحت کے لیے خون بہانا، بڑے ہیرے اور مقناطیسی کمپاس، یہ سب آپ کو اس سفر میں ملیں گے۔

اگر آپ امبر سے بنے زیور کو کسی اونی کپڑے یا بھیڑ کی کھال سے رگڑیں، تو آپ یہ دیکھیں گے کہ اب امبر کاغذ کے چھوٹے ٹکڑوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہ تو بالکل جادو سا لگتا ہے۔ اسی کو اسٹیٹک الیکٹریسٹی ( کہتے ہیں۔

ڈھائی ہزار سال پہلے امبر کی اسی خصوصیت کی طرف ایک یونانی فلسفی کا دھیان گیا۔ یہ فلسفی مائلیٹس کا تھالز تھا اور اس نے امبر کو دیکھ کر کہا کہ ہر چیز میں دیوتا موجود ہیں۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اسے امبر کے بارے میں کیسے پتا چلا، کیونکہ اس کی لکھی ہوئی کوئی بھی کتاب نہیں بچی۔ تھالز کے بارے میں کچھ باتیں صرف ارسطو سے ہی معلوم ہوئیں لیکن خود ارسطو کی بھی بہت کم کتابیں باقی ہیں، اس لیے ہم زیادہ تر صرف قیاس آرائیاں ہی کر سکتے ہیں۔

کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ تھالز شاید ایک ہلکا پھلکا سائنسدان تھا جو اپنے چاروں طرف کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ میں نے تو ایک کارٹون دیکھا تھا جس میں تھالز دیہاتوں میں گھوم گھوم کر امبر کو بھیڑ کے گھنے بالوں میں رگڑ رہا ہے، مگر اب ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ سائنسدان نہیں بلکہ ایک فلسفی تھا۔ تو آئیے، اس کے اعزاز میں ہم نیچے دیا ہوا تجربہ کریں۔

فرض کیجئے کہ امبر سے بنا زیور ایک جوہری بہت احتیاط سے فر میں لپیٹ کر رکھتا ہے۔ کچھ دنوں بعد اس نے زیور نکال کر دیکھا کہ وہ کاغذ کے چھوٹے ٹکڑوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور یہی ایک یونانی کہانی بن جاتی ہے۔ امبر کہاں سے آیا؟ اس کہانی کو یونانی شاعر اوویڈ نے اپنی نظم میں کچھ اس طرح لکھا ہے:

ایک دن سورج کے بچوں میں سے فیتھیان نے اپنے باپ کا اڑن کھٹولا چوری کیا اور اسے بہت دیوانے پن سے سارے آسمان میں گھمایا۔ اسے دیکھ کر بڑے دیوتا جوپیٹر کو بہت غصہ آیا اور اس نے بادلوں کی کڑکتی بجلی سے اڑن کھٹولے پر وار کیا تو فیتھیان اڑن کھٹولے سے گر کر دریا میں ڈوب کر مر گیا۔

اس خبر پر اس کی سبھی بہنوں نے دریا کے کنارے کھڑے ہو کر بلند آواز میں رونا شروع کر دیا۔ اس شور و غل سے سارے دیوتا بہت پریشان ہوئے اور انہوں نے ان بہنوں کو پیڑ اور ان کے آنسوؤں کو امبر میں بدل دیا۔ یہ کہانی فیتھیان اور اس کی بہنوں کے لیے اچھی نہیں تھی لیکن جوہری دوکاندار کے لیے بہت فائدے مند ثابت ہوئی کیونکہ یہ مشہور ہوا کہ امبر میں دیوتاؤں کا حصہ شامل ہے، اس لیے امبر کے زیور بہت مہنگے ہو گئے اور دوکاندار کو خوب منافع ہوا۔

امبر کی اس کہانی کے بعد الیکٹریسٹی کی سمجھ کے بارے میں اگلے 2500 سال تک کچھ خاص نہیں ہوا۔ وقت کا پہیہ رفتہ رفتہ آگے بڑھتا رہا اور اب ہماری کہانی کا اگلا اہم موڑ سن 1600 کے انگلستان میں ملکہ الزبتھ کے زمانہ میں ایک عجیب و غریب شخصیت والے ڈاکٹر ولیم گلبرٹ تک پہنچا۔

گلبرٹ نے مقناطیس کی خصوصیات پر ایک کتاب لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔ گلبرٹ کی شہرت اور کامیابی بھی بہت عجیب ہے کیونکہ نہ وہ کچھ خاص خوش شکل تھا اور نہ ہی خوشگوار خصلت کا مالک تھا۔ مثال کے طور پر اس نے اپنے زمانے کے ہر مشہور شخص کا ذکر بہت برے الفاظ میں کیا اور وہ اپنے علاوہ سب کو بالکل جاہل سمجھتا تھا۔ اس کی شہرت شروع میں ایک کامیاب ڈاکٹر کے طور پر ہوئی، لیکن وہ بھی عجیب معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس دور میں زیادہ تر علاج دو طرح سے کیا جاتا تھا، پہلا طریقہ بیمار کا تھوڑا خون بہا کر اور دوسرا اس کو تھوڑی مقدار میں زہر پلا کر۔ لگتا ہے کہ گلبرٹ ان دونوں کاموں میں ماہر ہوگا، جبھی وہ اتنا مقبول ہوا کہ اسے ملکہ الزبیتھ کا خاص ڈاکٹر مقرر کیا گیا۔ لیکن الزبیتھ اتنی سمجھدار تھیں کہ انہوں نے اس طرح کے کسی ڈاکٹر کو کبھی ہاتھ نہیں لگانے دیا۔

یورپ میں اس زمانے کو رینیسانس کہتے ہیں، یہ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’دوبارہ جنم لینا‘ ہے۔ وہ زمانہ تھا جب یورپ میں آرٹ، سائنس اور کلچر میں ایک نئی تازگی آئی اور پرانے عقیدوں اور پابندیوں کو کھلے عام بدلنے کی خواہش کا خیرمقدم کیا گیا۔گلبرٹ کو مقناطیس کی خصوصیات سمجھنے کا بہت شوق تھا اور وہ اس کے مختلف تجربات کرتا رہتا تھا۔

مقناطیسی کا سب سے پرانا ذکر چوتھی صدی قبل مسیح کے چین کے گویگوزی کا ہے۔ میگنٹ (مقناطیس) لفظ کا یونانی زبان سے تعلق ہے۔ یہ بھی ایک کہانی ہے کہ یونان میں ایک مگنیس نامی چرواہے نے یہ دیکھا کہ ان کے ڈنڈے کا لوہا اور جوتے کی کیلیں ایک پتھر سے چپک گئی تھیں۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے اس پتھر کو مقناطیسی پتھر یا لوڈسٹون کا نام دیا گیا۔ مصر میں مقناطیس کا استعمال کر کے مندروں میں پوجا کی چیزوں کو ہوا میں لٹکا کر کرشمہ دکھایا جاتا تھا۔ چین میں ایک بادشاہ نے اپنے محل کی حفاظت کے لیے اس کے دروازوں کو مقناطیس سے بنوایا تاکہ اس سے کوئی ہتھیار لے کر اندر نہ آ سکے۔

ہمیں اب تحقیق سے معلوم ہے کہ ہر چیز تھوڑی بہت مقناطیسی ہوتی ہے کیونکہ سب چیزیں ایٹم سے بنی ہیں اور اس خصوصیت کا بجلی سے گہرا تعلق ہے۔ ہر ایٹم میں الیکٹران نیوکلیس کے چاروں طرف چکر لگاتے ہیں جس کی وجہ سے ایک بجلی بہتی ہے اور اس سے ایٹم ایک چھوٹا مقناطیس بن جاتا ہے۔ اگر ایٹم کے زیادہ تر الیکٹران ایک ہی سمت میں چکر لگائیں تو وہ ایٹم ایک طاقتور مقناطیس بن جاتا ہے۔ اب اگر اس چیز کے زیادہ تر ایٹم کے مقناطیس ایک ہی سمت ہوں تو وہ چیز ایک طاقتور مقناطیس بن جاتی ہے۔ مقناطیس کی تفصیلی کہانی کا کہیں اور ذکر ہوگا، ہم فی الحال گلبرٹ کی کہانی کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔

گلبرٹ نے دیکھا کہ اگر ایک چھوٹا مقناطیس کسی نوکیلی چیز پر ایسا رکھا جائے کہ وہ آسانی سے گھوم سکے تو وہ ہمیشہ زمین کے شمال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مقناطیس کی یہ خصوصیت پرانے زمانے میں بھی لوگوں کو معلوم تھی لیکن شاید گلبرٹ وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ لکھا کہ چھوٹا مقناطیس اس لیے شمال کی طرف رہتا ہے کیونکہ ہماری زمین خود ایک بڑا مقناطیس ہے۔

اپنی ڈاکٹری کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اٹھارہ سال مقناطیس کے ساتھ کھیلتے ہوئے، گلبرٹ نے امبر کو رگڑنے کے بعد کاغذ کے چھوٹے ٹکڑوں کو کھینچنے پر بھی غور کیا۔ اس نے یہ سوچا کہ امبر بھی مقناطیس کی طرح ہو جاتا ہے۔ باریکی سے تجربہ کرنے پر اس نے پایا کہ حالانکہ امبر کی ’اسٹیک الیکٹریسٹی‘ مقناطیس کی طرح چھوٹی چیزوں کو کھینچتی ہے لیکن وہ کئی معنوں میں الگ ہے۔ پہلی تو یہ کہ مقناطیس مستقل ہوتا ہے، جبکہ امبر کو رگڑنا پڑتا ہے۔ دوسرا فرق یہ کہ مقناطیس ہر موسم میں کام کرتا ہے، جب کہ امبر صرف سوکھے دنوں میں اور اگر ہوا میں نمی ہو یا پانی ہو تو امبر بالکل کام نہیں کرتا۔ تیسرا اور بہت اہم فرق یہ کہ مقناطیس صرف کچھ خاص چیزوں کو کھینچتا ہے، جبکہ رگڑا ہوا امبر تقریباً ہر چیز کو کھینچتا ہے۔

ان دریافتوں کے بعد، اس نے مختلف چیزوں پر رگڑ کر تجربات کیے اور یہ دیکھا کہ صرف امبر ہی نہیں، بلکہ بہت سی چیزیں رگڑنے کے بعد امبر کی طرح کاغذ کے چھوٹے ٹکڑوں اور فر کو کھینچتی ہیں۔ چونکہ یہ خصوصیت سب سے پہلے امبر میں دریافت ہوئی تھی، اس لیے گلبرٹ نے اسے امبر کے یونانی نام ’الیکٹران‘ اور لاطینی میں ’الیکٹریئس فورس‘ کا نام دیا، جو پھر انگریزی میں ’الیکٹرک فورس‘ بن گیا۔ اس طرح ’الیکٹریسٹی‘ کو اس کا نام ملا۔

باوجود بہت دھیان سے تجربات کرنے کے گلبرٹ سے ایک بڑی غلطی ہوئی۔ اسے یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ مقناطیس اپنی طرف کھینچتا (attract) اور دور بھی بھگاتا (repel) ہے۔ مخالف پولز ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں اور ایک جیسے پولز کے بیچ ریپلشن ہوتا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ الیکٹریکس بھی ایسی ہو سکتی ہے جو ریپل کرے۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ الیکٹریکس میں صرف کشش ہوتی ہے۔ اس بات کا علم ہونے میں 70 سال اور لگے لیکن وہ کہانی پھر کبھی۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/LDsCotB

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...