نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کیا کائنات میں ہم جیسے اور بھی ہیں؟ زمین جیسے سیارے پر زندگی کے ممکنہ آثار

انسانی تاریخ میں زندگی کے سب سے بڑے سوالوں میں سے ایک یہ رہا ہے، کیا ہم اس وسیع کائنات میں اکیلے ہیں؟ قدیم زمانے سے ہی انسان نے آسمان کی وسعتوں میں جھانک کر اپنے جیسے کسی اور کے وجود کی تلاش کی ہے۔ جدید دور میں فلکیاتی سائنس نے اس تلاش کو ایک سائنسی بنیاد فراہم کی ہے اور حالیہ دنوں میں ایک اہم دریافت نے اس سوال کو ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنا دیا ہے، وہ ہے سیارہ کے2-18بی (K2-18b) پر زندگی کے ممکنہ آثار کی دریافت ہونا۔

’کے2-18بی‘ ایک ایسا سیارہ ہے جو زمین سے تقریباً 124 نوری سال یعنی تقریباً 700 کھرب میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک سرخ بونے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے اور سائز کے اعتبار سے زمین سے ڈھائی گنا بڑا ہے۔ اس کی کمیت اور ساخت کے لحاظ سے یہ زمین اور نیپچون کے درمیان آتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ ایک ہائیسین ورلڈ (Hycean World) ہو سکتا ہے، یعنی ایسا سیارہ جس پر سمندر ہوں اور فضا میں ہائیڈروجن غالب ہو۔

یونیورسٹی آف کیمبرج کے سائنسدانوں نے ناسا کی جدید ترین جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کی مدد سے اس سیارے کی فضا کا تجزیہ کیا۔ یہ ٹیلی سکوپ اتنی حساس ہے کہ دور دراز سیاروں کی فضا سے گزرنے والی روشنی میں موجود کیمیائی عناصر کو بھی پہچان سکتی ہے۔

پروفیسر نکّو مدھوسودھن کی قیادت میں ہونے والی تحقیق میں کے2-18بی کی فضا میں کچھ خاص مالیکیولز دریافت ہوئے جن میں ڈائیمیتھائل سلفائیڈ (ڈی ایم ایس)، ڈائی میتھائل ڈائی سلفائیڈ (ڈی ایم ڈی ایس)، میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہیں۔ ڈی ایم ایس خاص طور پر دلچسپ ہے کیونکہ زمین پر اسے صرف سمندری مخلوقات جیسے فائیٹوپلانکٹن یا بیکٹیریا پیدا کرتے ہیں۔

پروفیسر مدھوسودھن کا کہنا ہے کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ صرف ایک مشاہدے کے دوران ڈی ایم ایس کی مقدار زمین سے ہزاروں گنا زیادہ معلوم ہوئی ہے، جو اس امکان کو تقویت دیتی ہے کہ یہ گیس کسی حیاتیاتی سرگرمی سے پیدا ہو رہی ہو سکتی ہے۔

تاہم سائنسی برادری کسی بھی نتیجے تک پہنچنے میں انتہائی احتیاط سے کام لیتی ہے۔ سائنس میں کسی بھی دریافت کو ثابت شدہ ماننے کے لیے ایک شماریاتی معیار درکار ہوتا ہے جسے فائیو سگما (Five Sigma) کہا جاتا ہے، یعنی 99.99999 فیصد یقین۔ فی الحال یہ تحقیق تھری سگما پر ہے، جو 99.7 فیصد یقین کے برابر ہے۔ گو کہ یہ پچھلی تحقیق (68 فیصد یقین) کے مقابلے میں کافی بہتر ہے، مگر سائنسی طور پر حتمی دعویٰ کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ پروفیسر مدھوسودھن پر امید ہیں کہ اگلے ایک یا دو سال کے اندر مزید مشاہدات کے ذریعے یہ معیار حاصل کیا جا سکتا ہے۔

پروفیسر کیتھرین ہیمنز، جو اس تحقیق کا حصہ نہیں رہیں، کا کہنا ہے کہ زمین پر تو ڈی ایم ایس اور ڈی ایم ڈی ایس جیسے مالیکیولز زندگی سے جڑے ہوتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ دوسرے سیاروں پر غیر حیاتیاتی عمل بھی یہ گیسیں پیدا کر سکتے ہیں یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی آف کیمبرج کی ٹیم دیگر سائنسی اداروں کے ساتھ مل کر لیبارٹری میں اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ آیا یہ مالیکیولز غیر حیاتیاتی ذرائع سے پیدا ہو سکتے ہیں۔

کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس سیارے پر واقعی سمندر موجود ہو سکتے ہیں، خاص طور پر کیونکہ وہاں امونیا موجود نہیں، جو عام طور پر آبی ماحول میں جذب ہو جاتا ہے۔ مگر پروفیسر اولیور شورٹل اور ڈاکٹر نکولس ووگن جیسے محققین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے یہ سیارہ دراصل ایک چھوٹا گیس جائنٹ ہو جس کی کوئی ٹھوس سطح موجود نہ ہو، یا پھر اس کی سطح پگھلے ہوئے پتھروں سے بنی ہو، جو زندگی کے امکان کو کم کر دیتا ہے۔

اس تمام احتیاط کے باوجود سائنسدان مانتے ہیں کہ یہ دریافت کائنات میں زندگی کی تلاش کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ بی بی سی کے مشہور سائنسی پروگرام دی اسکائی ایٹ نائٹ کے میزبان پروفیسر کرس لنٹوٹ کے مطابق، اگرچہ ہم ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ زندگی واقعی دریافت ہو گئی ہے لیکن یہ تحقیق ہمیں اس سوال کے قریب ضرور لے جا رہی ہے۔ وہیں، پروفیسر مدھوسودھن کا ماننا ہے کہ ممکن ہے ہم آئندہ برسوں میں پیچھے مڑ کر دیکھیں اور اس لمحے کو وہ موڑ کہیں جب ’زندہ کائنات‘ کا تصور حقیقت سے قریب تر ہو گیا۔

سیارہ کے2-18بی پر ممکنہ حیاتیاتی سرگرمیوں کی یہ دریافت فلکیات کے میدان میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اگرچہ حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم زندگی کے بڑے سوال کا جواب حاصل کرنے کے سفر پر گامزن ہیں۔ اگر آنے والے برسوں میں تحقیق پانچ سگما کے معیار تک پہنچتی ہے، تو انسان کو شاید کائنات میں اپنی تنہائی کا سوال کا جواب مل جائے۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/jo2z1uG

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...