نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

آزادی کے 75 سال: نہرو کی سائنسی سوچ کا کمال، زمین سے آسمان تک ترقی... عمران خان

ہندوستان جب 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا تو ہمیں بے شمار دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بھوک کا مسئلہ تھا، طبی سہولیات میسر نہیں تھیں، سڑکیں نہیں تھیں، نقل و حرکت کے وسائل نہیں تھےاور جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم و تربیت کے لئے ادارے بھی موجود نہیں تھے ۔سینکڑوں برسوں غیروں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہندوستان کی باگڈور جب پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے سنبھالی تو انہوں نے ایک ایسے جدید ہندوستان کا خواب دیکھا جس میں شہریوں کو تمام سہولیات میسر ہوں اور ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو۔ جواہر لال نہرو نے صرف خواب ہی نہیں دیکھا بلکہ اسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کام بھی کیا اور آج جب ہم 75واں آزادی منا رہے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اس سفر کا بہت بڑا حصہ عبور کر لیا ہے اور دنیا میں آج ہندوستان کو عزت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

اہم اداروں کا قیام

جواہر لال نہرو نے ہندوستان میں سائنس اور ٹکنالوجی کی بنیاد رکھی اور سائنسی سوچ کو فروغ دیا ۔ ان کی سرپرستی میں ہندوستان کے دفاعی شعبہ میں 3 بنیادی اکائیاں قائم کی گئیں ، دفاعی تحقیق کے لیے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن(ڈی آر ڈی او) ، جوہری توانائی کی ترقی کے لیے ایٹامک انرجی کمیشن اور خلائی تحقیقی کے لئے انڈین سپیس ریسرچ آرگینائیزیشن (اسرو) قائم کیا گیا۔پنڈت نہرو کا خیال تھا کہ غربت ، چھواچھوت، مذہبی توہم پرستی اور پسماندگی جیسے مسائل کا حل سائنس میں ہی پوشیدہ ہے کیونکہ مستقبل سائنس کا ہی ہے۔ اس لیے وہ سائنس کی ترقی کے لیے پرعزم تھے اور آزادی حاصل کرنے کے بعد نئی قوم کی تعمیر میں سائنس کے کردار کو سب سے اوپر رکھا۔

ہندوستان میں 1948 سے 1964 کے دوران آئی ٹی آئی، پلانگ کمیشن، آئی آئی ٹی، ایمس، سیل، او این جی سی، ڈی آر ڈی او، آئی آئی ایم، اسرو اور بھیل جیسے کئی ادارے قائم کئے گئے، جو ہندوستان میں سائنس کی ترقی کے معاون بنے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی بڑے باندھ، کارخانہ، فیکٹریاں اور صنعتیں قائم کیں جنہوں نے آزاد ہند کو جدیدیت کے راستہ پر چلایا۔ اس کے بعد ملک نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں مثالی ترقی کی اور کئی شعبوں میں آج ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ یومِ آزادی کے موقع پر ہندوستان کی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ترقی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

زرعی شعبہ کا سبز انقلاب

آزادی کے بعد ہندوستان میں اناج اور دیگر زرعی مصنوعات کی بھاری قلت تھی۔ سینچائی کے ذرائع کی کمی تھی ، کیمیائی کھاد کا فقدان تھا اور ان بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملک میں گیہوں کی پیداوار انتہائی کم ہوتی تھی۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے 1960 میں غیر ممالک سے ہائبرڈ بیج درآمد کئے گئے، مگر نئی قسم کے بیجوں کی پیداوار کے لئے سینچائی کے لئے زیادہ پانی، کیمیائی کھاد اور کرم کش کی ضرورت تھی لہذا حکومت نے سینچائی کے لئے نظام تیار کیا اور کھاد وغیرہ پر سبسڈی فراہم کی۔ اس کے نتیجہ میں سبز انقلاب کا ظہور ہوااور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کے گودام اناج سے بھر گئے اور ملک کے لوگوں کی فاقہ کشی دور ہوئی۔

صحت کے شعبہ میں انقلاب

آزادی کے وقت طاعون، چیچک، ملیریا، ہیضہ جیسی بیماریاں وبائی شکل اختیار کر کے ہزاروں جانیں لے لیتی تھیں۔حکومت ہند نے وباؤں سے مقابلہ کے لئے وسائل فراہم کئے اور طاعون کو 1950 تک پوری طرح ختم کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ جذام، ڈپتھیریا، میعادی بخار، کالی کھانسی، نمونیا اور ریبیز جیسی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے عوامی نظام صحت کو مضبوط کیا گیا اور ٹیکہ کاری مہم چلا کر عوام میں قوت مدافعت پیدا کی ۔ طبی ماہرین کی کمی کے پیش نظر نئے میڈیکل کالج قائم کئے گئے۔ 1946 میں ملک میں 15 میڈیکل کالج تھے وہیں 1965 میں ان کی تعداد بڑھ کر 81 ہو گئی۔ اس کے بعد نطام صحت میں جو بہتری آئی اسے اس امر سے سمجھا جا سکتا ہے کہ 1947 میں لوگوں کی اوسط عمر صرف 32 سال تھی ، جبکہ 60 کی دہائی تک بڑھ کر 42 سال اور آج یہ بڑھ کر 70 سال ہو چکی ہے۔

ہندوستان میں 1956 میں ایمس (آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ) کا قیام کیا گیا، جوکہ وزارت صحت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ہندوستان ہی نہیں بلکہ ایشیا میں میڈیکل ریسرچ کا مرکز مانا جاتا ہے۔

خلائی شعبہ کی ترقی، چاند اور مریخ تک رسائی

ہندوستان نے اپنا سب سے پہلا سیٹیلائٹ یعنی مصنوئی سیارہ ’آریہ بھٹ‘ 1975 میں خلا میں روانہ کیا ۔ جسے ہندوستان کی خلائی تحقیق تنظیم ’اسرو‘ نے سویت یونین (روس) کی مدد سے تیار کیا تھا۔ اس کا مقصد ایکس رے فلکیات، ایرونومکس اور سولر فزکس میں تجربہ کرنا تھا۔ اس پہلے مشن کے کامیاب ہونے کے بعد ہندوستان نے خلائی شعبہ میں کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ اسرو کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ہندوستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اپنے مشن چاند اور مریخ پر بھیجے ہیں اور جو اپنے نہیں بلکہ غیر ملکی سیٹیلائٹ بھی خلا میں روانہ کر رہا ہے۔ ہندوستان نے ’چندریان ‘ کے نام سے چاند پر مشن بھیجا تھا۔ چندریان سے سب سے پہلے چاند پر منجمد شکل میں پانی کی موجودگی کا پتہ دیا تھا۔ ہندوستان اب چاند پر چندریان 2 کی تیاری کر رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ہندوستان انسان کو بھی خلا میں بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔

ٹیلی ویزن اور کمپیوٹر کا انقلاب

ہندوستان میں ٹی وی براڈکاسٹ کی شروعات 1959 میں ہوئی اور 1982 میں رنگین ٹیلی کاسٹ کی شروعات ہوئی۔ اس کے بعد 1980 کے عشرے کو دوردرشن کا دور کہا جاتا ہے۔ سال 1992 میں نجی ٹی وی چینلوں کی شروعات ہوئی اور پھر نیوز چینلوں کا بھی دور شروع ہو گیا۔ہندوستان میں آج 900 کے قریب نجی ٹی وی چینل ہیں، جبکہ نیوز چینلوں کی تعداد 392 ہے۔

کمپیوٹر کی بات کریں تو ہندوستان میں سب سے پہلے کمپیوٹر 1952 میں کولکاتا میں لایا گیا تھا، اسے انڈین انسٹی ٹیو آف سائنس میں لگایا گیا تھا۔ مگر کمپیوٹر کے دور کی حقیقی شروعات 1956 میں ہوئی جب پہلا ڈیجیٹل کمپیوٹر لگایا گیا۔ اس وقت ہندوستان جاپان کے بعد ایشیا کا دوسرا ایسا ملک تھا جہاں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا تھا ۔ اتنا ہی نہیں ہندوستان نے پرم کے نام سے سے اپنا دیسی ساختہ سُپر کمپیوٹر بھی 90 کے عشرے میں تیار کر لیا۔ دراصل 1987 میں امریکی صدر رونالڈ ریگن اور وزیر اعظم راجیو گاندھی میں ہندوستان کو سپر کمپیوٹر فراہم کرنے کا معاہدہ کیا گیا تھا لیکن بعد میں انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد راجیو گاندھی کی ہدایت پر 1988 میں سینٹر فار ڈیولپمنٹ آف ایڈوانس کمپیوٹنگ (سی-ڈیک) کا قیام کیا گیااور اگلے تین سالوں میں ملک کا پہلا سپر کمپیوٹر ’پرم 8000‘ تیار ہوا۔

آج ہندوستان میں براڈ بینڈ کے ذریعے ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی فراہمی کی جا رہی ہے۔ اسکولوں، اسپتالوں، کمپنیوں یہاں تک کہ دکانوں تک میں کمپیوٹر کا استعمال ہو رہا ہے۔ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کا یہاں ایک بڑا بازار موجود ہے اور ملک کے سافٹ ویئر ڈیولپرز دنیا میں نام کما رہے ہیں۔

موبائل فون کی ترقی

ہندوستان میں پہلی موبائل کال 1995 میں کی گئی تھی اور جس فون پر کال کی گئی تھی وہ نوکیا کمپنی کا تھا۔ آج ہندوستان میں تقریباً ہر ہاتھ میں ایک موبائل ہے اور یہ لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ ہندوستان موبائل کی ایک بہت بڑی منڈی بھی ہے لہذا سال 2018 میں سیم سنگ ہندوتان میں موبائل تیار کرنے کی سب سے بڑی فیکٹری قائم کی ہے جوکہ نوئیڈا میں موجود ہے۔ اس فیکٹری میں ہر سال 12 کروڑ موبائل تیار ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں موبائل انٹرنیٹ کی 4 جی خدمات دستیاب ہیں اور جلد ہی 5جی کی بھی شروعات ہو جائے گی۔

ہندوستان نے ان 74 سالوں میں مثالی ترقی کی ہے تاہم ابھی بہت کام کئے جانے کی ضرورت ہے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کے باوجود ملک میں فرقہ پرستی اور توہم پرستی کا مسئلہ آج بھی برقرار نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے، امیر اور امیر ہو رہے ہیں ، غریب اور غریب ہوتے جا رہے ہیں۔کچھ علاقوں میں غذائی قلت اور بنیادی سہولیات کی محرومی آج بھی نظر آتی ہے ۔بہتر سیاست اور دوراندیش پالیسیوں سے ہی ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے اور اگر یہ سب ہوا تو ہندوستان نہ صرف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ میں مزید بلندیوں پر پرواز کر ےگا بلکہ ملک کے پسماندہ اور محروم طبقوں کو بھی پستی سے باہر نکال سکتا ہے۔ اس میں کوئی دور ائے نہیں کہ ہم نے ماضی کے چیلنجوں کو بہت خوبصورتی سے حل کیا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اس ترقی کو مزید آگے لے کر جانا ہے۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/MlECghy

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...