نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مشین اور انسان پھر آمنے سامنے... انشومنی رودر

جب بھی کوئی نئی تکنیک دستک دے رہی ہوتی ہے تو وہ دور پرانے چلے آ رہے نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی ہوتی ہے۔ میں اسے ’ڈائنامائٹ فیز‘ کہتا ہوں جس کا استعمال آپ پہلے سے قائم نظام کی دھجیاں اڑانے یا پھر بڑے پہاڑوں کے سینے میں سرنگ جیسی تعمیر کر انسانیت کو آگے بڑھنے کا راستہ دکھانے میں کر سکتے ہیں۔ آرٹیفیشیل انٹلیجنس (اے آئی)، خاص طور پر جنریٹیو اے آئی آج اسی طرح کے ’ڈائنامائٹ فیز‘ میں ہے۔ تخلیقی آرٹ یا پروڈکٹ کے ذریعہ روزی روٹی چلانے والے فنکار اور مصنف جیسے لوگوں کے پیروں تلے جیسے زمین کھسکتی نظر آ رہی ہے۔ اس لیے یہ جاننے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اتھل پتھل مچانے والے اس واقعہ کا ان لوگوں کی تخلیقیت اور روزی روٹی پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔

ایک ایسے شخص کے طور پر جو اپنی روزی روٹی کے لیے تقریباً چھ سال تک تحریر و تخلیق پر منحصر رہا ہو اور اس کے بعد کے تقریباً 12 سال گیمز، ہیلتھ کیئر، تعلیم، میڈیا اور پیمنٹ سے جڑے تکنیکی صارفین مصنوعات کی تخلیق پر، اس کے لیے یہ موضوع اہم ہے اور دلچسپ بھی۔ کسی چیز کی تخلق کرنا ایک ذاتی قسم کا کام ہے۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے ہنر، جسے پانے کے لیے سالوں کی محنت اور تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مصنف، فنکار، کوڈرس اور ڈیزائنرس... سب کے ساتھ یہی بات نافذ ہوتی ہے۔ کسی بھی خاص فن کے بارے میں ہم اس کے ماہرین کو پڑھنے، دیکھنے، سننے، ان کے نظریہ کو سمجھنے سے سیکھتے ہیں اور اس ضمن میں سب سے زیادہ کارگر وہ مرحلہ ہوتا ہے جب ہم خود کرنا شروع کرتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے جب ہم اس کام میں اپنا ایک خاص اسٹائل تیار کر پاتے ہیں۔

فنکار اکثر اس سے ڈرتے ہیں کہ ان کی تخلیق کو اصلی نہیں بلکہ کسی دیگر تخلیق سے متاثر مانا جا سکتا ہے۔ ’نقلچی‘ قرار دیئے جانے کا خوف انھیں ستاتا رہتا ہے۔ پھر بھی یہ غیر متنازعہ حقیقت ہے کہ ہم سبھی نے نقل کے ذریعہ ہی سیکھا۔ کوئی بھی اس بچے (یا یہاں تک کہ ایک ایپل پنسل کو آڑا ترچھا چلاتے ایک نوجوان) سے سوال نہیں کرتا جو ونسینٹ وین گو کی سورج مکھی کو دیکھ کر اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

میں نے سب سے پہلے جو کہانیاں لکھیں، وہ بالکل ’پنچ تنتر‘ اور اینڈ بلائٹن کی اسکولی کہانیوں جیسی تھیں۔ فنتاسی فکشن کے رائٹر کے طور پر ٹیری پراچتیٹ کی آنکھیں موند کر نقل نہیں کرنے یا ’ٹولکن‘ جیسی ’بھیانک‘ نظم (اس کے باوجود کہ میں نے وکرم سیٹھ کی ’بیسٹلی ٹیلس‘ کی نقل کی) لکھنے میں بھی مجھے سالوں لگ گئے۔ تقریباً 10 لاکھ الفاظ ہاتھ سے لکھنے کے بعد ہی میں نے اپنی محدود صلاحیتوں میں ’اصلی‘ ہونے کے اعتماد کو محسوس کرنے کی ہمت پیدا کر سکا۔

لیکن جنریٹیو آرٹیفیشیل انٹلیجنس مجھے سوچ میں ڈال دیتا ہے۔ ایل ایل ایم (لارج لینگویج ماڈل) ایک طرح کا مشین لرننگ ماڈل ہے جو تمام طرح کے لسانی کام کر سکتا ہے۔ اس سے جڑے کئی سوالات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ کیا ایل ایل ایم کو دنیا کے بہترین فکشن رائٹرس کی کتابوں کے بارے میں اس طرح تربیت کی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی الگ ہی ’اصل‘ کتاب لکھ دے؟ پھر، موسیقی اور مصوری کے شعبہ میں کیا ہوگا؟ اگر آپ ایک فنکار ہیں، تو کیا جنریٹیو اے آئی کسی اور کو آپ کے خاص اسٹائل میں تصویر بنانے کے قابل بنا سکتا ہے؟ کیا اس سے بالآخر فنکاروں کی آمدنی ماری جائے گی؟

اس موضوع پر جب میں نے اوروں سے بات کرنی شروع کی تو پتہ چلا کہ اس نئے تکنیکی ٹول کے ضمن میں اخلاقیات، معاشیات اور اس سے جڑی پالیسیوں کو لے کر دوسرے لوگوں کے ذہن میں بھی اسی طرح کے سوال امنڈ رہے ہیں۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ضروری تھا کہ میں خود اس میں گہرائی تک اتروں۔ میرے لیے اس نئی تکنیک کو سیکھنا اور پھر اپنے تجربات کو شیئر کرنا ضروری تھا۔ آپ کو یہ دلچسپ لگ سکتا ہے کہ ایک شخص جو خود ایک فنکار ہے، تباہی مچانے والے اس ’ڈائنامائٹ فیز‘ میں بھی کچھ مثبت نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر آپ ایک ٹیکنالوجسٹ یا تکنیک سے جڑے صارف مصنوعات بنانے والے ہیں تو بھی یہ آپ کو دلچسپ لگ سکتا ہے۔ اور پھر آپ ایک اے آئی ماہر بھی ہو سکتے ہیں جو یہ سوچ کر اپنا دھیان اِدھر جمائے کہ دیکھیں جو میں بنا رہا ہوں، اس پر دنیا کس طرح رد عمل کر رہی ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ آپ ایک تماش بین ہوں جو دور سے یہ سب دیکھتے ہوئے سوچ رہا ہو کہ آخر یہ بلا ہے کیا؟ اگر ایسا ہے تو آپ کو سیٹ بیلٹ باندھ کر ایک نئے سفر کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔

جنریٹیو اے آئی، ایل ایل ایم اور ان کے ماڈل:

اس مضمون کا یہ حصہ بازار میں دستیاب مختلف جنریٹیو ٹیکسٹ اے آئی ٹولس کی مدد سے تیار کیا گیا۔ اس سے ایل ایل ایم کی لکھنے کی قابلیت کا اندازہ ہوا۔ بے شک میں نے اسے اچھی طرح ایڈٹ کیا اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ اس میں دی گئی باتیں درست ہوں اور جہاں بھی مجھے لگا کہ روانی ٹوٹ رہی ہے، وہاں میں نے ان کی از سر نو تحریر بھی کی۔ لیکن موٹے طور پر ان ٹولس کو میں نے بہت ہی کام کا پایا۔ خاص طور پر بڑے ٹیکسٹ کا اختصار کرنے والے ٹول کا تو میں مرید ہو گیا۔ میرا ماننا ہے کہ اس تکنیک سے اچھی تحریر کو نقصان تو نہیں ہونے جا رہا، الٹے اس ابھرتی ہوئی تکنیک سے تحریریں مزید بہتر ہوں گی۔

جنریٹیو اے آئی:

جنریٹیو اے آئی ایک طرح کا آرٹیفیشیل انٹلیجنس ہے جو ٹیکسٹ، امیج اور میوزک جیسی نئی اشیا تیار کر سکتا ہے۔ جس بھی اشیا کے ضمن میں اسے ٹرینڈ کیا جاتا ہے، یہ اس میں پیٹرن اور رشتوں کو تلاش کرنے میں ایک نیورل نیٹورک ماڈل کا استعمال کرتا ہے۔ ایک بار جب وہ پیٹرن تلاش کر لیتا ہے تو اس کا استعمال نئی اشیا تیار کرنے میں کرتا ہے۔

(انشومنی رود کا یہ مضمون ہندی ہفتہ وار ’سنڈے نوجیون‘ سے لیا گیا ہے)



from Qaumi Awaz https://ift.tt/9KkHzyR

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...