نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

یورپ اور جنوبی ایشیا میں آرینس کے آنے میں یکسانیت اور فرق... وصی حیدر

(42ویں قسط)

یورپ اور جنوبی ایشیا میں آرینس کے آنے کی ہسٹری میں کافی دلچسپ یکسانیت ہے لیکن تفصیلات میں کچھ فرق بھی ہے۔ مغربی ایشیا کے اناتولین (موجودہ ترکیہ کا ایشائی حصّہ) سے لوگ مغربی یورپ کھیتی کا ہنر تقریباً 7000 سال قبل مسیح سے 5000 سال قبل مسیح کے دوران لائے۔ جنوبی ایشیا میں اسی دوران ایران کے زگروز پہاڑیوں کے پاس رہنے والے لوگ مغربی ہندوستان میں مہرگڑھ میں وہاں پہلے سے بسے لوگوں کے ساتھ ایک نئی تہذیب کی بنیاد ڈالی جو وقت گزرنے کے بعد عظیم ہڑپا کی شکل میں ابھری اور ایک نیا جنیٹکس گروپ ANI بنا۔ ہڑپا تہذیب کے بکھرنے کے بعد جب یہاں کے کچھ لوگ جنوبی ہندوستان پہنچے تو انہوں نے وہاں پہلے سے بسے ہوموسیپینس میں گھل مل کر جینیٹکس کے دوسری شاخ ASI بنائی۔ لیکن شاید بلوچستان کے مہرگڑھ  اور اتر پردیش کے لہورڈیوا میں بھی کھیی باڑی کی شروعات ہو چکی تھی۔ زگروز سے آنے والوں نے کھیتی اور مختلف جانوروں کو پالتو بنانے کے ہنر کو نکھارا۔ مغربی یورپ میں باہر سے آنے والوں نے وہاں بسے شکاری لوگوں کے ساتھ مل کر کئی neolithic تہذیبوں کو جنم دیا۔

یورپ اور ایشیا میں آرینس کے پھیلنے کی کہانی میں جینیٹکس کے لحاظ سے ایک دلچسپ یکسانیت gender bias کی ہے جس کا ذکر Reich نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ جب تک جینیٹکس کے سائنسدان موجودہ ہندوستانی ڈھانچوں میں صرف ایم ٹی ڈی این اے (جو ہم کو صرف اپنی ماں سے ملتا ہے) کو دیکھ رہے تھے تو ان کو سٹیپپے کے جینس کی کوئی ملوٹ نہی ملی لیکن جیسے ہی Y کروموسوم (جو ہم کو اپنے والد سے ملتا ہے) کو دیکھا گیا تو سٹیپپے کے جینس کی ملاوٹ کا راز کھلا۔عورتوں کے مقابلہ مردوں کے جینس کی بہت زیادہ ملاوٹ کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے آرینس مرد اپنے سیاسی اور سماجی اثر کی وجہ سے اور لوگوں کے مقابلہ شادیاں کرنے میں زیادہ کامیاب ہوئے۔ سٹیپپے سے پھیلنے والے آرینس کی کہانی میں عورتوں اور مردوں کا یہ فرق سبھی جگہ ہے۔

2017  کی جنیٹکس تحیقات کی دلچسپ دریافت یہ ہے کہ ہندوستان کی موجودہ آبادی میں تقریبا 70 سے 90 فیصدی ایم ٹی ڈی این اے جینس پرانے افریقہ سے آئے لوگوں کے ہیں، جب کے Y کروسوم صرف 10 سے 40 فیصدی ہی ہیں۔ یعنی آنے والے آرین مرد جنسی طور زیادہ کامیاب تھے۔

جنوبی ایشیا اور مغربی یورپ میں آرینس کے کئی سمتوں میں پھیلنے میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ یورپ میں ہر مرتبہ پرانی آبادی تقریباً ختم ہوگئی۔ اس کے برخلاف ایشیا میں یہ بدلاؤ ایسا نہیں ہوا۔ سوائے شمالی یورپ کے زیادہ تر جگہوں پر پہلے سے رہ رہے لوگ دس فیصدی سے بھی کم رہ گئے جبکہ موجودہ ہندوستان کی آبادی میں اب بھی تقریباً 50-65 فیصدی لوگوں میں افریقہ سے آئے ہوئے پہلے ہندوستانیوں کے جینس ہیں۔ یہ جبھی معلوم ہو پایا جب صرف y کروموسوم یا ایم ٹی ڈی این اے  کے بجائے پورے انسانی جینس کی تحقیقات سامنے آئی۔

 دونوں جگہوں کے یہ فرق زبانوں کے فرق سے بھی صا ف دکھائی دیتے ہیں، مثلا مغربی یورپ کے 94 فیصدی لوگ انڈو یورپین زبانیں بولتے ہیں جبکہ ہندوستان میں صرف 75 فیصدی۔ 20 فیصدی لوگ ہمارے ملک میں ڈراویڈین زبان استمال کرتے ہیں، جب کے مغربی یورپ میں ایسی کوئی زبان نہیں بچی۔ اکیلی زبان جو سٹیپپے سے آنے والوں کے غلبہ سے بچی وہ  Basque ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں میں سٹیپپے کے جینس کی بہت کم ملاوٹ ہے اور ان کے اصل جد امجد آرینس کے آنے سے پہلے بسے کسان اور شکاری ہوموسپینس ہیں۔ شاید یہی وجہ جنوبی ہندوستان میں ڈراوڈ ینس زبانوں کا بچنا ہے کیوکہ جنوبی ہندوستان آنے والے آرینس کے اثر سے بچی رہیں۔

آرینس کے سٹیپپے سے یورپ آنے کے پرانے ڈی این اے تحقیقات کے ثبوتوں کے ملنے پر سائنسدانوں کو بہت تعجب ہوا۔ خاص طور سے دوسری جنگ عظیم کے بعد سبھی لوگوں میں ’’نازی اور ان کی سمجھ کے وہ خالص آریانس ہیں ناکہ ناپاک مشرقی یورپین یا یہودی‘‘کے خلاف عام ہوا تھی کہ انہوں نے پرانے زمانہ میں بہت فتوحات کیں ہے اور اپنی تہذیب corded ware  کو پھیلایا اور ان جگہوں پر صرف ان کا حق ہے۔ اپنی ریس کی پاکیزگی بچانے کے لیے تمام اور لوگوں کو ختم کرنا ان کا فرض ہے۔ کھدائی میں ملے سامان کی تحقیقات سے منسلک سائنسدان اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھے کہ یورپ میں پرانے زمانہ میں آریانس نے یورپ آکر یہاں کی تہذیب کو بلکل بدل ڈالا۔ لیکن ڈی این اے تحقیقات کے نئے انکشافات نے ان دونوں کو غلط ثابت کر دیا۔ اب یہ صا ف ہے کے آرین نے یوروپ آکر وہاں کی پرانی تہذیبوں کو تقریباً پورے طور سے بدل ڈالا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نازیوں کی یہ سمجھ بھی غلط ثابت ہوئی کے آرین خالص ہیں کیونکہ ان میں بھی ملاوٹ ہے اور زیادہ اہم یہ کے یہ لوگ مشرقی یورپ سے آئے جن سے نازیوں کو خاص نفرت تھی اور جن کا اجتمائی قتل عام ہٹلر کی فوجوں نے کیا۔

نازیوں سے نفرت کے علاوہ بھی وجہیں تھیں کہ سائنسدانوں کو آرینس کے یورپ میں بڑے پیمانہ کی ہجرت پر شبہ تھا۔ مثلا Colin Renfrew  نے لکھا کہ وہ جگہیں جہاں کامیاب کھیتی شروع ہو جائے تو پھر آبادی تیزی سے بڑھتی ہے اور ان آباد جگہوں پر باہر سے آکر پوری تہذیب کو بدلنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کے آخر پھر آرینس یوروپ کو بدلنے میں کیسے کامیاب ہوئے۔

ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ باوجود اس کے کے کھیتی باڑی سے آبادی ایکدم تیزی سے بڑھی لیکن پھر بہت جگہیں غیر آباد تھیں، مثال کی طور پر جب ہڑپہ تہذیب، جو اپنے وقت کی سب سے بڑی تھی اور جب اپنے شباب پر تھی تو اس کی کل آبادی کا تخمینہ تقریباً پچاس لاکھ ہے جب کہ اکیلے موجودہ حیدرآباد شہر کی آبادی 80 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یعنی بہت بڑا علاقہ خالی غیر آباد تھا۔ سٹیپپے سے آنے والوں نے جنگلوں کو صاف کرکے اپنے رہنے کے لیے گھاس کے میدانوں میں بدل دیا۔

یوورپ کی آبادی اور کلچر کے زبردست بدلاؤ کی وجہ اور امکان بھی سامنے آئے جب Eske Willerslev اور ان کے ساتھیوں کی ڈی این اے تحقیقات کے نتیجہ سن 2015 میں سامنے آئے۔ انہوں نے یہ پایا کچھ  Eurasia کی Bronze age کے زمانہ کے انسانی ڈھانچوں میں plague کے جراسیم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کے سٹیپپے سے آنے والے لوگ اپنے ساتھ plague کے جراسیم لائے یعنی اس کا امکان ہے کے یوروپ کی پرانی آبادی plague کا شکار ہوکر کافی حد تک ختم ہو گئی۔ دنیا کی تاریخ میں plague سے اس طرح آبادی کا بڑا بدلاؤ امریکا میں بھی ہوا۔ امریکا کی دریافت کے بعد یوروپ سے امریکا جانے والے لوگ وہاں اپنے ساتھ plague کے جراسیم بھی لے گئے جس نے امریکا کے بہت علاقوں میں پرانی آبادی کو بالکل ختم کر دیا۔ ان تحقیقات کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہیں ایسا تو نہیں کے ہڑپہ تہذیب کے زوال کی وجہ بھی سٹیپپے سے آنے والے آرینس کے ساتھ یہاں بھی plague نے اپنا کام دکھایا کیوںکہ ہڑپہ تہذیب کے زوال کا وقت اور آرینس کے ہندوستان آنے کا وقت تقریباً ایک ہے۔ اس کا سہی جواب تبھی مل پائے گا جب ہڑپہ کے زوال کے وقت ہڑپہ، موہن جودارو اور کالی بنگان کے علاقوں کے انسانی ڈھانچوں کی ڈی این اے تحقیقات ہوں۔

 اگر یہ معلوم بھی ہوجائے کے plague نے ہڑپہ کی آبادی کو کم کیا تو پھر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہڑپہ کے ختم ہونے کی اصل وجہ بہت لمبے عرصہ تک سوکھا ہے جس کی وجہ سے کھیتی کو بہت نقصان اور اناج کی قلّت سے بھکمری نے اس عظیم تہذیب کی کمر توڑ دی۔ لمبے عرصہ تک پڑے سوکھے کے ثبوت موجود ہیں اور اسی دوران اس نے مصر، مسوپوٹامیہ اور چین کی تہذیبوں کو بھی برباد کیا۔ اس سمجھ کو بہت تقویت ملی جب سن 2018 میں پرانے زمانہ کی موسمیات کی تبدلیوں کی بہت تفصیلی تحقیقات سامنے آئیں۔ یہ دریافت ہوا کہ 2200 قبل مسیح کے پاس ایک لمبے عرصہ تک ایک بہت پڑا سوکھا پڑا جس نے ان تمام تہذیبوں کو برباد کیا جو بہت حد تک کھیتی باڑی پر منحصر تھیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کے برطانوی سائنسدان Mortimer Wheeler نے غلط جینز پر ہڑپہ تہذیب کے زوال کا الزام رکھا۔ انہوں نے اپنے سروے کے بعد سارا الزام Indra پر رکھا یعنی ارینس، جب کے اصل وجہ Vruna یعنی بارش دیوتا ہیں۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/vtxAnzU

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...