نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گلوبل وارمنگ کے تباہ کن اثرات: ہندوستان و پاکستان میں طوفان کینیڈا کے جنگلات میں اگ

ماحولیاتی سائنس اور اَرضیات کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے اس کرّۂ اَرض کے درپیش سنگین مسائل سے بخوبی واقف ہیں کہ فی زمانہ ہماری زمین، اس پر آباد تمام جانداروں کو قدرتی ماحول کے سنگین مسائل سے کیا کیا خدشات اور خطرات کا سامنا ہے۔ موسمی تبدیلیاں، زمینی، فضائی اور آبی آلودگی، شہروں میں آبادی کا بڑھتا ہوا دبائو، اوزون کی پرت میں ہونے والے شگاف، کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا مسئلہ، جنگلات کی کٹائی کے منفی اَثرات، جنگلی حیاتیات اور سمندری حیاتیات کی بتدریج تباہی، سمندروں کی سطح کا بلند ہونا، برفانی طوفان، موسلادھار بارشیں، خشک سالی، غذائی قلّت، بھوک، قحط سمیت دیگر مسائل ان میں شامل ہیں۔

امریکی صدر کنیڈی نے کہا تھا کہ ہمارے زیادہ مسائل اور مصائب کا خود انسان ذمہ دار ہے۔ ان مسائل کو انسان ہی کو حل کرنا ہوگا۔ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے 1960 کی دہائی میں آوازیں اُٹھنی شروع ہوئی اور ایک غیرسرکاری تنظیم ’گرین پیس‘کا قیام 1971ء کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں عمل میں آیا۔ اس تنظیم کے بنیادی اغراض و مقاصد میں عالمی امن، قدرتی ماحول کا تحفظ اور جوہری تجربات کا خاتمہ ہے۔

ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کی بڑھتی ہوئی مقدار سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔گرین ہاؤس گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ اور پانی کے بخارات شامل ہیں۔ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے درجہ حرارت میں بے تحاشہ اضافہ گلوبل وارمنگ کہلاتا ہے جس کے زیر اثر موسمیاتی تبدیلی کے سبب ہمیں سیلاب اور جنگل کی آگ جیسے واقعات کے خطرے کا سامنا رہتاہے ۔ اس سے یہ امکان بھی بڑھ جاتا ہے کہ ایک ہی موسم میں متعدد آفات رونما ہو سکتی ہیں۔

سمندری طوفان بپرجوائے گزشتہ جمعرات کی شام پاکستان اور ہندوستان سے ٹکرایا جس کے بعد دونوں ممالک کے ساحلی علاقے اور صوبے تیز بارش اور تیز ہواؤں کی لپیٹ میں ہیں۔ بپرجوائے کی تباہ کاریاں ابھی تک جاری ہیں اور اس نے ہندوستانی صوبوں بالخصوص گجرات و راجستھان میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

دوسری جانب آگ موسم گرما کا ایک بڑا خطرہ ہے .ہر موسم گرما میں جنگل کی آگ آسٹریلیا سے کینیڈا تک سرخیوں میں آتی ہےجو لاکھوں ایکڑ جنگل کو تباہ کرتی ہے۔ اس وقت کینیڈا ساحل سے ساحل تک آگ کی لپیٹ میں ہے۔ ہزاروں افراد کو نکالا جا چکا ہے، لاکھوں فضائی آلودگی کا شکار ہیں، یہاں تک کہ نیویارک میں بھی دم گھٹ رہا ہے۔گزشتہ سالوں میں پاکستان میں تباہ کن سیلاب، بحرالکاہل کے جزیروں میں آنے والے طوفان اور افریقہ میں خشک سالی، عالمی سطح پر کسی کارروائی کا نقطہ آغاز پیدا نہیں کرسکے۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ’دی گارجین‘ نے سوال کیا ہے کہ اب جب کہ آب و ہوا کے اثرات مغربی طاقت کو متاثر کر چکے ہیں، کیا یہ عالمی شمال میں حکومتوں کو سنجیدہ ہونے کی ترغیب دے گا؟ مزید یہ کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سائنسی معلومات کی کمی رکاوٹ نہیں ہے۔ اور نہ ہی صاف ستھرے، محفوظ، سستے توانائی کے متبادل کی کمی ہے۔بلکہ جیسا (IPCC – Intergovernmental Panel on Climate Change) یا موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل نے پچھلے سال کہا تھا - رکاوٹ فوسل فیول کے مفادات پر منحصر ہے جو اپنے منافع کو عوام کی حفاظت سے اوپر رکھتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر، بڑے تیل کی کمپنیاں کئی دہائیوں سے آب و ہوا کی بات چیت کر رہی ہیں۔ لیکن نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پیرس معاہدے میں فوسل فیول، تیل، گیس یا کوئلہ کے الفاظ شامل ہی نہیں ہیں۔ اور دوسری جانب دنیا 2030 تک 110 فیصد زیادہ تیل، گیس اور کوئلہ پیدا کرنے کی راہ پر گامزن ہے ۔ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے، تیل اور گیس کی کمپنیوں نے سچائی میں خلل ڈالا ہے اور ترقی کو روکا ہے۔ انہوں نے عوام کو قائل کرنے کے لیے PR مہموں پر لاکھوں خرچ کیے ہیں کہ فوسل فیول کو پھیلانا محفوظ، معقول اور ناگزیر ہے اور یہ کہ فوسل فیول کا متبادل مسائل کا شکار اور ناقابل اعتبار ہیں۔ اور یہ پروپگنڈا کامیاب بھی ہے۔

دنیا کو فوسل فیول کی پیداوار اور اخراج کو مرحلہ وار ختم کرنے کے منصوبوں کی ضرورت ہے۔ اور اس میں امیر فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک کو عالمی جنوب کے ممالک کو صاف توانائی کی منتقلی میں مدد کرنی چاہیے تاکہ یہ تیز رفتار اور منصفانہ طریقے سے ہو سکے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تیل، گیس اور کوئلہ ہمیں جلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 101 نوبل انعام یافتہ اور 3000 سے زیادہ سائنسدان فوسل فیول کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر زور دے رہے ہیں۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/b9hKgGS

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...