نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جوہری توانائی کے بغیر کاربن سے چھٹکارا ناممکن

متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں 2023 کی اقوام متحدہ کی آب و ہوا کی کانفرنس (کاپ 28) میں جوہری توانائی کی شبیہہ کو اس وقت تقویت ملی، جب 198 ممالک نے جوہری توانائی کو کم اخراج والی ٹیکنالوجیز کی فہرست میں شامل کیا، جن کو بڑھانے کی ضرورت ہے اگر دنیا فوسل فیول(جیواشم ایندھن) پر انحصار ختم کرنا چاہتی ہے ۔ اس کانفرنس سے جوہری توانائی کی ضرورت اور افادیت کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہوا۔ لیکن جوہری پاور پلانٹس میں توانائی پیدا کرنے کے عمل سے پیدا ہونے والا انتہائی تابکار فضلہ، اور خرچ شدہ ایندھن (جوہری توانائی کے حصول میں صرف ہونے والا ایندھن) کا مسئلہ وقتاً فوقتاً تشویش کا باعث رہا ہے۔

خرچ شدہ ایندھن کے محفوظ انتظام سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس سے پہلے، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل میریانو گروسی نے جوہری توانائی کی نمو ، اور اس توانائی کو سمجھنے میں کاپ28 کے اعلامیہ سے جو فرق پڑ سکتا ہے پر گفتگو کرتے ہوئے ’اقوام متحدہ خبر نامہ‘ کو بتایا کہ جوہری توانائی ماحول دوست توانائی کے حصول میں پہلے ہی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ جوہری توانائی کو عام کیے بغیر کاربن کے اخراج پر قابو پانا ممکن نہیں، تاہم اس مقصد کے لیے حکومتوں کو اس توانائی سے وابستہ منفی تاثر کو دور کرنا ہو گا۔ جوہری توانائی کئی طرح کی قابل تجدید توانائی سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ دنیا کو اصل خطرہ معدنی ایندھن سے ہے جو کرہ ارض کو تباہی سے دوچار کر رہا ہے۔

اگرچہ جوہری توانائی زیادہ تر بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہوتی ہے لیکن اس کے بارے میں تاثر کچھ اچھا نہیں ہے۔ اس کی وجہ 1985 میں موجودہ یوکرین کے علاقے چرنوبل اور 2011 میں جاپان کے شہر فوکوشیما میں پیش آنے والے جوہری حادثات ہیں۔ علاوہ ازیں، یوکرین پر روس کے حملے کے بعد وہاں ژیپوریژیا جوہری پلانٹ کو لاحق خطرات نے بھی اس تاثر کو مضبوط کیا ہے۔

گروسی کے مطابق عوامی تاثر، پالیسی اور جوہری توانائی کے بارے میں سمجھ بوجھ کے حوالے سے دبئی اعلامیے کی بہت اہمیت ہے۔ جوہری توانائی ماحول دوست توانائی کے حصول میں پہلے ہی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ آج دنیا میں جتنی ماحول دوست اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک توانائی پیدا ہو رہی ہے اس میں ایک تہائی سے زیادہ حصہ جوہری توانائی کا ہے۔ آج یورپ میں پیدا ہونے والی مجموعی توانائی میں نصف حصہ جوہری توانائی کا ہے۔ اسی لیے ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کئی سال تک چرنوبل اور پھر فوکوشیما کی وجہ جوہری توانائی کے بارے میں بہت سی غلط اطلاعات عام رہی ہیں جنہوں نے اس توانائی کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بھی پیدا کی ہے۔

اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنسوں میں بھی جوہری توانائی کے خلاف مزاحمتی رویہ دیکھنے کو ملا ہے حتیٰ کہ اسے سرے سے مسترد بھی کیا گیا ہے۔ اسی لیےکاپ 28میں جوہری توانائی کو قابل تجدید توانائی قرار دیا جانا ایک بڑا قدم تھا۔ اس موقع پر بہت سے اہم ممالک نے اپنی ہاں پیدا ہونے والی توانائی میں جوہری توانائی کی شرح تین گنا بڑھانے کے وعدے بھی کیے۔ گروسی نے اسے حقیقت پسندی سے تعبیر کیا۔ علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلی پر سائنس دانوں کے بین الاقوامی پینل نے اعتراف کیا ہے کہ جوہری توانائی کے بغیر 2050 تک کاربن کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا۔ اسی لیے جوہری توانائی کی پیداوار بڑھے گی اورآئی اے ای اے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنائے گا کہ یہ اضافہ محفوظ طریقے سے ہو اور اس کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے بچا جا سکے۔

جوہری توانائی کے بارے میں پھیلی غلط اطلاعات کی مثال دیتے ہوئے گروسی نےکہا کہ ایک عام سوچ یہ ہے کہ فوکوشیما جوہری حادثے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ اس وقت جاپان میں آنے والے سونامی سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے لیکن تابکاری سے ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی۔ اعدادوشمار کے مطابق جوہری توانائی کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد دیگر طرح کی قابل تجدید توانائی کے مقابلے میں کہیں کم ہیں۔ گروسی نے دلیل دی کہ بہت سے لوگ فضائی حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن لوگ جہازوں پر سفر کرنا ترک نہیں کرتے۔ لہذا حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے آگاہ رکھیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا جوہری توانائی پر 100 فیصد انحصار کرنے لگے، بلکہ بیک وقت کئی طرح کی توانائی سے موثر طور پر کام لینا ہوگا جس میں جوہری توانائی کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔

گروسی نے اعتراف کیا اگرچہ اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنسوں میں ایک اہم مسئلہ ترقی پذیر ممالک کو قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے مالی مدد دینا ہے لیکن جوہری بجلی گھروں کے لیے خطیر رقم درکار ہے اور اس وقت عالمی سطح پر جوہری توانائی کے لیے مالیاتی وسائل کی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ تاہم اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے ان پالیسیوں پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ گروسی کے مطابق ہندوستان سے چین، ارجنٹائن سے برازیل، میکسیکو، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ تک دنیا کے جنوبی حصے میں جوہری توانائی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ افریقہ کے متعدد ممالک بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ماڈیولر ری ایکٹروں کی بدولت یہ توانائی ان ممالک کے لیے زیادہ سستی ہے۔

آئی اے ای اے جوہری توانائی کے فوائد اور اس کے امکانات کی بات کرتا ہے۔ ساتھ ہی ادارہ جوہری سلامتی کا بھی ذمہ دار ہے۔ دونوں ذمہ داریاں بظاہر ایک دوسرے سے متضاد ہیں لیکن گروسی اسے کسی اور زاویے سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوکرین میں جوہری تنصیبات (ژیپوریژیا جوہری پاور پلانٹ) پر قبضہ ہو چکا ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ دراصل جنگ ہے جو اس پلانٹ کے ارد گرد ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت تقریباً 440 جوہری ری ایکٹر کام کر رہے ہیں جن میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں آیا۔ اسی لیے آئی اے ای اے یوکرین میں کسی حادثے سے بچنے کے لیے اتنی فعال رہی ہے۔ کسی بھی اہم صنعتی سرگرمی کی طرح جوہری توانائی کا حصول بھی خطرات مول لینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جوہری فضلہ اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ اسے ٹھکانے لگانے کا اچھی طرح انتظام کیا جاتا ہے اور اس کی مقدار محدود ہوتی ہے۔ تجارتی بنیادوں پر 70 سال سے جاری کام میں کبھی اس فضلے سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے معدنی ایندھن کرہ ارض کو لاحق بہت بڑے خطرات کا سبب ہے۔

آئی اے ای اےکی لیبارٹریوں میں سائنسی اور جوہری تحقیق جاری ہے۔ ایجنسی اونکولوجی اور ریڈیو تھراپی جیسے شعبوں میں ترقی پذیر ممالک کی جوہری ٹیکنالوجی سے کام لینے کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مدد مہیا کرتی ہے۔ جوہری توانائی ایریڈی ایشن (شعاع ریزی) ٹیکنالوجی کے ذریعے غذائی تحفظ بھی مہیا کر رہی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی فصلوں کو گلنے سڑنے سے بچانے، خشک سالی کا مقابلہ کرنے والے بیجوں کی تیاری، کیڑے مکوڑوں کا خاتمہ کرنے اور زکا وائرس یا ملیریا کے خطرات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ کووڈ۔19 وبا کے بعد جرثوموں اور جانوروں سے پھیلنے والے وائرس اور امراض کی بروقت نشاندہی کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ آئی اے ای اے کا دوسرا رخ ہے جہاں جوہری توانائی سے ترقی کے کام میں مدد لی جا رہی ہے۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/aPqjstg

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...