نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عالمی آبی چکر میں عدم توازن

زمین پر زندگی کے لیے پانی ایک لازمی ضرورت ہے اور پانی ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے۔ واٹر سائیکل یا آبی چکر زمین کےاندر اور ماحول میں پانی کی حرکت ہے اور اس میں پانی کے بخارات اور ورن (بارش) جیسے عمل شامل ہیں۔ آج ہونے والی بارش شاید دنوں پہلے کسی دور دراز سمندر کاپانی رہی ہو ۔ اور ہو سکتا ہے کہ کسی دریا کا پانی کسی اونچے پہاڑ کی چوٹی پر برف کی شکل میں رہا ہو۔ پانی فضا میں، زمین پر، سمندر میں اور زیر زمین ہے۔ یہ واٹر سائیکل کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ بدل رہا ہے۔

عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے بخارات کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ زیادہ بخارات اوسطاً زیادہ بارش کا سبب بنتے ہیں، اور اس صدی کے دوران آب و ہوا کے گرم ہونے پر ان کے اثرات میں اضافہ متوقع ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا مطلب دنیا کے مختلف خطوں میں موسم کا بدلنا ہے۔ یہ زیادہ شدید موسمی واقعات کا باعث بن رہا ہے جس کے اثرات انسانی صحت پر پڑ سکتے ہیں، پینے کے صاف پانی، خوراک اور پناہ گاہ تک رسائی اور گرمی، خشک سالی یا سیلاب سے نمٹنے کی لوگوں کی صلاحیت کو متاثر کرسکتا ہے۔

زیادہ بخارات کی وجہ سے ہوا میں زیادہ پانی ہوتا ہے لہذا طوفان کچھ علاقوں میں زیادہ شدید بارشیں پیدا کر سکتے ہیں اور سیلاب کا سبب بن سکتے ہیں۔ زیادہ بخارات پانی کو بھاپ میں بدل دیتے ہیں اور کچھ علاقوں میں خشک سالی کا سبب بنتے ہیں۔ خشک سالی کا شکار جگہوں کے اگلی صدی میں مزید خشک ہونے کی توقع ہے۔ اسی طرح، سمندر کی سطح کا گرم پانی سمندری طوفانوں کو تیز کر سکتا ہے، جس سے مزید خطرناک حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ یہ طوفان مستقبل میں مزید طاقتور اور تباہ کن ثابت ہوں گے۔

دنیا کے زیادہ علاقوں میں گرمی کی لہریں عام ہو گئی ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2020 کی دہائی تک، سمندر کی سطح ایک صدی پہلے کی نسبت 0.1- 0.2 میٹر (0.30-0.75 فٹ) زیادہ ہو گئی ہے۔ 21ویں صدی میں، اگر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج متوقع سطح پر جاری رہا تو سطح سمندر میں 1.1 میٹر (3.6 فٹ) تک اضافے کی توقع ہے۔

سطح سمندر میں اضافہ دو طریقوں یا وجوہات سے ہوتا ہے۔ پہلا، پگھلتے ہوئے گلیشیئرز سے پانی دریاؤں میں بہتا ہے اور سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔ پچھلے 100 سالوں میں پہاڑی گلیشیئرز، آرکٹک گلیشیرز اور گرین لینڈ کی برف کے سائز میں ڈرامائی طور پر کمی آئی ہے۔ دوسرا، سمندر کا پانی گرم ہونے کے ساتھ پھیلتا ہے، اس کے حجم میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے سمندر میں پانی زیادہ جگہ لیتا ہے اور سطح سمندر بلند ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، سمندر کا پانی گرم ہو رہا ہے اور اس میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں اتھلے سمندروں میں گرم پانی دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی مرجان کی چٹانوں کی موت کا سبب بنا ہے۔ سمندری برف کا سکڑنا ایک اور عنصر ہے جو زیادہ گرمی کا باعث بنتا ہے۔ ہر سال، سمندری برف کی مقدار جو آرکٹک اوقیانوس کا احاطہ کرتی ہے سردیوں میں بڑھتی ہے اور پھر گرمیوں میں اس کے کناروں پر پگھل جاتی ہے۔ لیکن حال ہی میں، گرم درجہ حرارت کی وجہ سے گرمیوں میں زیادہ برف پگھلی ہے اور سردیوں میں برف کم جمی ہے۔

16 اکتوبر 2024 کو شائع ہونے والی ایک نئی رپورٹ کے مطابق، دنیا کا آبی چکر انسانی تاریخ میں پہلی بار توازن سے باہر ہوا ہے، جو پانی کی بڑھتی ہوئی تباہی کو ہوا دے رہا ہے جو معیشتوں، خوراک کی پیداوار اور زندگیوں کو تباہ کر دے گا۔ گلوبل کمیشن آن دی اکنامکس آف واٹر یا پانی کی اقتصادیات پر عالمی کمیشن کے ماہرین نے اس عدم توازن کی وجہ کئی دہائیوں کی اجتماعی بدانتظامی اور پانی کی کم قدر کو قرار دیا۔ یہ کمیشن نیدرلینڈز کی حکومت سے وابستہ ہے اور اسے آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ یا اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم نے سہولت فراہم کی ہے، جو دنیا کے امیر ترین ممالک کا ایک گروپ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم اپنے اجتماعی مستقبل کے لیے میٹھے پانی کی دستیابی پر مزید اعتماد نہیں کر سکتے۔ آبی چکر میں رکاوٹیں پہلے ہی مصائب کا باعث بن رہی ہیں۔ تقریباً 3 ارب لوگوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 1,000 بچے روزانہ غیر محفوظ پانی اور صفائی ستھرائی سے متعلق بیماریوں سے مرتے ہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ کھانے پینے کے نظام میں تازہ پانی ختم ہو رہا ہے اور شہر دھس رہے ہیں کیونکہ ان کے نیچے موجود پانی خشک ہو رہا ہے۔ اور یہ مزید سنگین ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا کی خوراک کی پیداوار کا نصف سے زیادہ حصہ ایسے علاقے میں ہے جہاں پانی کی سپلائی میں کمی متوقع ہے۔ فوری کارروائی کے بغیر اس کے نتائج اور بھی تباہ کن ہوں گے۔ رپورٹ میں موجودہ طرز عمل میں تبدیلی نہ ہونے کی صورت میں شدید اقتصادی اثرات کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ان مسائل کے مشترکہ اثرات اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے زیادہ آمدنی والے ممالک کی مجموعی گھریلو پیداوار کی شرح 2050 میں اوسطاً 8 فیصد اور کم آمدنی والے ممالک میں 10 سے 15 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے شریک مصنف جوہان راکسٹروم نے کہا کہ بارش تمام میٹھے پانی کا ذریعہ ہے اور اس پر مزید بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ رپورٹ میں 'نیلے پانی'، جیسے جھیلوں، دریاؤں اور آبی ذخائر میں پانی اور 'سبز پانی' یا مٹی اور پودوں میں موجود نمی کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ سبز پانی کی فراہمی کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا گیا ہے لیکن یہ آبی چکر کے لیے اہم ہے کیونکہ جب پودے پانی کے بخارات چھوڑتے ہیں تو یہ فضا میں واپس آجاتا ہے، جو زمین پر ہونے والی تمام بارشوں کا نصف حصہ پیدا کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، آبی چکر میں رکاوٹیں موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ گہرے طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ سبز پانی کی فراہمی پودوں کی مدد کے لیے ضروری ہے جو زمین کو گرم کرنے والے کاربن کو ذخیرہ کر سکتی ہے۔ لیکن گیلی زمینوں اور جنگلات کو تباہ کرکے انسان اسے نقصان پہنچاتے ہیں، جس کے سبب یہ کاربن سنکس ختم ہو رہے ہیں اور گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نتیجے میں ، موسمیاتی تبدیلی سے خشکی بڑھ رہی ہے، نمی کم کر رہی ہے اور آگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

انگلینڈ کی ریڈنگ یونیورسٹی میں کلائمیٹ سائنس کے پروفیسر رچرڈ ایلن نے کہا کہ یہ رپورٹ عالمی آبی چکر میں انسانی وجہ سے ہونے والی رکاوٹ کی ایک سنگین تصویر پیش کرتی ہے، یہ سب سے قیمتی قدرتی وسیلہ ہے جو بالآخر ہماری روزی روٹی کو برقرار رکھتا ہے۔ انہوں نے سی این این کو بتایا، قدرتی وسائل کے بہتر انتظام اور سیارے کو گرم کرنے والی آلودگی میں بڑے پیمانے پر کمی کے ذریعے ہی بحران سے نمٹا جا سکتا ہے۔

رپورٹ میں عالمی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آبی چکر کو ایک 'مشترکہ بھلائی' کے طور پر تسلیم کریں اور اسے اجتماعی طور پر حل کریں۔ ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں، نہ صرف سرحدوں پر پھیلی جھیلوں اور دریاؤں کے ذریعے، بلکہ فضا میں موجود پانی کی وجہ سے بھی، جو بہت زیادہ فاصلہ طے کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک ملک میں کیے گئے فیصلے دوسرے ملک میں بارش میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی ڈائریکٹر جنرل اور رپورٹ شائع کرنے والے کمیشن کی شریک چیئرمین، نگوزی اوکونجو-ایویلا نے کہا کہ پانی کا عالمی بحران ایک المیہ ہے لیکن یہ پانی کی معاشیات کو تبدیل کرنے کا ایک موقع بھی ہے۔ پانی کی صحیح قدر کرنا ضروری ہے، تاکہ اس کی کمی اور اس کے بہت سے فوائد کو پہچانا جا سکے۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/UrtRgiD

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...