نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

چاند پر ملی ایسی جگہ جہاں بسائی جا سکتی ہے انسانوں کی بستی، سورج کی تپش بھی نہیں!

چاند پر انسانوں کو بسانے کے لیے کوششیں عرصۂ دراز سے جاری ہیں۔ اس تعلق سے سائنسداں اکثر نئی نئی جانکاریاں دیتے رہتے ہیں اور ریسرچ کا سلسلہ بھی تیزی کے ساتھ چل رہا ہے۔ چونکہ چاند پر سورج کا خطرناک ریڈیئشن موجود ہے، اس لیے وہاں تپش یعنی درجہ حرارت غیر معمولی پائی جاتی ہے۔ لیکن اب ناسا کے سائنسدانوں نے غالباً اس مسئلہ کا حل تلاش کر لیا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ چاند پر کچھ ایسے مقامات کی تلاش میں کامیابی ملی ہے جہاں درجہ حرارت انسانوں کے لیے آرام دہ ہے۔ دراصل چاند پر موجود کچھ ایسے گڈھوں کے بارے میں پتہ لگایا گیا ہے جہاں درجہ حرارت 17 ڈگری سلسیس ہے۔

دراصل چاند کے بیشتر حصے ایسے ہیں جہاں پر انسانی بستی بسانا مشکل ہے۔ دن کے وقت چاند پر درجہ حرارت زمین سے 15 گنا زیادہ (تقریباً 127 ڈگری سلسیس) تک ہوتا ہے۔ چاند کے تاریکی والے حصے میں درجہ حرارت منفی 173 ڈگری سلسیس تک گر جاتا ہے۔ لیکن نئے تلاش کیے گڈھوں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہاں سورج کی تپش بہت زیادہ نہیں اور اس سے مستقبل میں چاند مشن کافی آسان ہو جائے گا۔ امریکی اسپیس ایجنسی ناسا کے لونر ریکانیسنس آربٹر کے پروجیکٹ سائنسداں نوح پیٹرسن نے چاند کے گڈھوں کی اس خوبی کے بارے میں بتایا ہے۔

سائنسداں نوح پیٹرسن کا کہنا ہے کہ ’’یہ جانتے ہوئے کہ یہ گڈھے ایک مستحکم ماحول بناتے ہیں، ہمیں چاند کی ان خصوصیات کو جاننے اور تلاش کرنے کے امکان کی تصویر کشی کرنے میں مدد کرے گا۔‘‘ چاند کے گڈھوں کو 2009 میں تلاش کیا گیا تھا، تبھی سے سائنسداں اس بات کی دریافت کر رہے ہیں کہ کیا انھیں شیلٹر کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انھیں آپ چاند کے کریٹر سے مت جوڑ لیجیے۔ یہ گڈھے چاند کی سطح پر کھوکھلے غاروں جیسے ہوتے ہیں۔

نئی تحقیق کی قیادت کرنے والے ٹائلر ہووَرتھ نے کہا کہ ’’200 سے زیادہ گڈھوں میں سے تقریباً 16 لاوا ٹیوب کے ہیں۔‘‘ بہرحال، اس وقت اسٹڈی کے لیے سائنسداں 328 فیٹ گہرے گڈھے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، جسے میر ٹرینکوئلی ٹیٹس کی شکل میں جانا جاتا ہے۔ چٹان کی تھرمل پراپرٹی جاننے کے لیے کمپیوٹر ماڈل کا استعمال کیا گیا۔ اس میں انھوں نے پایا کہ جن مقامات پر گڈھے میں پرچھائی ہے وہاں درجہ حرارت 17 ڈگری سلسیس ہے۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/kmszQCl

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...