نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

چاند کے تاریک پہلو میں دنیا کی دلچسپی

چین نے چاند کے تاریک پہلو کا مطالعہ کرنے کے لیے ’چینگ 6‘ نامی تحقیقاتی مشن لانچ کر دیا ہے۔ ’چینگ 6‘ چین کی جانب سے چاند کی تحقیق کے سلسلے کا چھٹا مشن ہے۔ 53 دن کے اس مشن کا مقصد چاند کی ان دور دراز چٹانوں اور مٹی سے نمونے حاصل کرنا ہے جو کبھی زمین کا سامنا نہیں کرتے۔ دنیا کی پہلی کوشش میں، چین کا سب سے بڑا راکٹ تقریباً دو ماہ کے مشن کے لیے ’چینگ 6‘ قمری تحقیقاتی روبوٹ کو لے کر خلا میں روانہ ہو گیا ۔ لانگ مارچ-5 راکٹ 3 مئی کو مقامی وقت شام 5:27 بجے جنوبی صوبے ہینان کے وینچانگ اسپیس لانچ سینٹر سے آٹھ ٹن سے زیادہ وزنی پروب کے ساتھ روانہ ہوا۔

’چینگ 6‘ کا نام چینی افسانوی چاندکی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کی لانچ چین کے قمری اور خلائی تحقیق کے پروگرام میں ایک اور سنگ میل کی نشاندہی کرتی ہے۔ چین کے لونر ایکسپلوریشن پروگرام کے چیف ڈیزائنر وو ویرن نے چینی خبر رساں ایجنسی ژنہوا کو بتایا کہ چاند کے دور دراز علاقہ سے نمونے جمع کرنا اور واپس آنا ایک بے مثال کارنامہ ہے۔ اگر یہ مشن اپنا مقصد حاصل کرتا ہے تو یہ سائنسدانوں کو چاند کے دور دراز کے ماحول اور مادی ساخت کو سمجھنے کے لیے پہلا براہ راست ثبوت فراہم کرے گا، جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔

ژنہوا کے مطابق، اپنے پیشرو ’چینگ 5‘ کی طرح، ’چینگ 6‘ میں ایک آربیٹر، ایک لینڈر، اور ایک اسینڈر، نیز ایک میکانزم موجود ہے جو اسے زمین پر واپس لائے گا۔ قطب جنوبی-آٹکن بیسن، جہاں ’چینگ 6‘ اترے گا، چاند کے تاریک پہلو پر ہے جو پراسرار ہے، کیونکہ یہ ہمیشہ زمین سے مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ چین 2018 میں، ’چینگ 4‘ کے ذریعے پہلی بغیر پائلٹ چاند پر لینڈنگ میں کامیاب ہوا، وہ بھی چاند کے دور دراز سمت میں۔ پھر 2020 میں، ’چینگ 5‘ کے ذریعے 44 سالوں میں پہلی بار انسان نے چاند کے نمونے حاصل کیے، اور ’چینگ 6‘ چین کو پہلا ملک بنا سکتا ہے جس نے چاند کی ’چھپی ہوئی‘ سمت سے نمونے حاصل کیے ہیں۔

اس لانچ میں فرانس، اٹلی، پاکستان اور یورپی اسپیس ایجنسی (ESA) کے سائنسدانوں، سفارت کاروں اور خلائی ایجنسی کے اہلکاروں نے شرکت کی۔ ان سبھی نے ’چینگ 6‘ پر چاند کا مطالعہ کرنے والے پے لوڈ بھیجے ہیں۔ پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ ’آئی کیوب قمر‘ ان میں شامل ہے۔ پاکستان کی نیشنل اسپسیس ایجنسی (سپارکو) نے سیٹلائٹ کا ڈھانچہ چین کی شنگھائی یونیورسٹی کے تعاون سے بنایا ہے۔ یہ دو آپٹیکل کیمروں سے لیس ہے جو چاند کی سطح کی تصاویر لینے کے لیے استعمال ہوں گے۔سیٹلائٹ کے نام میں ’قمر‘ یعنی چاند موجود ہے، اور آئی کیوب اس لیے کیونکہ پاکستانی انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی میں موجود اسمال سیٹلائٹ پروگرام کا نام ’آئی کیوب‘ ہے جس کے تحت 2013 میں پہلا سیٹلائٹ ’آئی کیوب ون‘ لانچ کیا گیا تھا۔

چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن (CNSA) لونر ایکسپلوریشن اینڈ اسپیس پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر جی پنگ کے مطابق، امریکہ کی کسی تنظیم نے پے لوڈ نہیں بھیجا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی قانون کے مطابق چین کانگریس کی منظوری کے بغیر امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہیں کر سکتا ۔ دنیا کے چھ ممالک بشمول امریکہ، سابقہ سوویت یونین (موجودہ روس)، چین، جاپان،ہندوستان اور یورپی یونین نے چاند کے مدار میں، چاند پر یا اس کے قریب اپنے مشن بھیجے ہیں۔ ان کے علاوہ جنوبی کوریا، لگزم برگ اور اٹلی امریکی اور چینی راکٹوں کے سہارے چاند کے مدار تک جا چکے ہیں اور اب پاکستان بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

راکٹ سے الگ ہونے کے بعد، ’چینگ 6‘ پروب کو چاند کے مدار تک پہنچنے میں چار سے پانچ دن لگیں گے۔ اس کے جون کے شروع میں چاند پر اترنے کی امید ہے۔لینڈنگ کے بعد تقریباً 2 کلوگرام نمونے کھودنے میں دو دن لگیں گے۔ نمونے کنٹینر میں بند کرنے کے بعدیہ زمین پر واپسی کے سفر کے لیے ریٹرنر کے ساتھ جڑ جائے گا۔ چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن کے مطابق، ’چینگ 6‘ کے تقریباً 53 دنوں بعد شمالی چین کے اندرونی منگولیا علاقہ میں اترنے کی توقع ہے۔ جی پنگ نے بتایا کہ ’چینگ 6‘ کے ذریعے جمع کیے گئے نمونوں کی ارضیاتی عمر تقریباً چار ارب سال ہوگی۔

زمین کے قریب ترین آسمانی پڑوسی کے بارے میں نئی معلومات کو عیاں کرنے کے علاوہ،’چینگ 6‘ چاند پر ایک مستقل ریسرچ اسٹیشن بنانے کے ایک طویل المدتی منصوبے کا حصہ ہے اور یہ منصوبہ چین اور روس کی قیادت میں بننے والابین الاقوامی قمری ریسرچ اسٹیشن (ILRS) ہے۔ چین کے خلائی پروگرام کا مقصد 2030 تک چاند پر خلابازوں کو بھیجنا، مریخ سے نمونے واپس لانا اور اگلے چار سالوں میں تین قمری تحقیقاتی مشن شروع کرنا ہے۔ چین کا اگلا مشن 2027 میں روانہ ہونا ہے۔

دوسری جانب اسپیس ایکسپلوریشن کو تجارتی بنیاد پر استوار کرنے کی امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی کوششوں کو اس وقت دھچکہ لگا جب 6 مئی کو بوئنگ نےعملے کے ساتھ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (ISS) کے لیے پرواز منسوخ کردی۔ تکنیکی خرابی کے باعث اسٹار لائنر خلائی کیپسول (CST-100)کی افتتاحی پروازروک دی گئی ۔ لانچ منسوخ کرنے کا فیصلہ لفٹ آف سے دو گھنٹے قبل اور دو خلابازوں کے خلائی جہاز میں پہنچنے کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد ہوا۔ عملے کے ساتھ افتتاحی خلائی مشن کی منسوخی ایسے وقت ہوئی ہے جب بوئنگ حفاظتی ریکارڈ کے حوالے سے تنقید کی زد میں ہے۔

اٹلس ـ5 (Atlas-V) راکٹ میں والو کی خرابی کی وجہ سےمشن ملتوی ہونے کا اعلان ناسا کے لائیو ویب کاسٹ کے دوران کیا گیا۔ ناسا کے سربراہ بل نیلسن نے ایکس (ٹویٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا، آج رات کی لانچ کی کوشش ملتوی کی جا رہی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں،ناسا کی پہلی ترجیح حفاظت ہے۔ جب ہم تیار ہوں گے تب ہم جائیں گے۔انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ درپیش مسئلے کو حل کرنے میں کتنا وقت لگے گا، لیکن لانچ آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔

اسٹار لائنر ناسا کے خلابازوں بوچ ولمور اور سنیتا ولیمز کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک پہنچانے والا تھا، جہاں انہیں زمین پر واپس آنے سے پہلے ایک ہفتہ گزارنا تھا ۔ اسٹار لائنر کے افتتاحی سفر کو ناسا کے معاہدوں کے لئے ایلون مسک کے اسپیس ایکس(SpaceX) کا مقابلہ کرنے کی بوئنگ کی صلاحیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 2019کی ناکام کوشش کے بعد، اسٹار لائنر نے 2022 میں اپنا پہلا بغیر عملے کا مشن ISS بھیجاتھا۔ 6 مئی لانچ کی منسوخی سےبوئنگ کے لیے مشکلات بڑھیں گی کیونکہ کمپنی کا ایوی ایشن ڈویژن پہلے ہی مبینہ حفاظتی خامیوں کی متعدد تحقیقات سے دوچار ہے۔ واضح رہے امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشن بوئنگ ہوائی جہاز، راکٹ، سیٹلائٹ اور میزائل ڈیزائن، تیار اور فروخت کرتی ہے۔

ناسا نے 2014 میں بوئنگ اوراسپیس ایکس کو خلابازوں اور کارگو کو خلا میں لے جانے کے لیے خلائی کیپسول تیار کرنے کے لیے اربوں ڈالر کے ٹھیکے دیےتھے۔ خلائی شٹل پروگرام کے اختتام کے بعد ناسا کے ان معاہدوں نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی جانب تبدیلی کے آغاز کو نشان زد کیا تھا۔ واضح رہے کہ اسپیس ایکس کے ڈریگن نے 2020 میں خلابازوں کو کامیابی کے ساتھ ISS تک پہنچایا، یہ پہلی بار تھا جب ناسا کے خلابازوں کو تجارتی طور پر بنائے گئے خلائی جہاز میں امریکی سرزمین سے لانچ کیا تھا۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/dmIovyV

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...