نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اپریل, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دن میں سب سے زیادہ گرمی تین بجے کیوں ہوتی ہے؟ ایک سائنسی وضاحت

دن کے سب سے گرم وقت کے بارے میں ہمارا عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ سہ پہر تقریباً تین بجے موسم سب سے زیادہ گرم محسوس ہوتا ہے، حالانکہ سورج کی روشنی سب سے زیادہ سیدھی دوپہر 12 بجے پڑتی ہے۔ یہ ایک دلچسپ مظہر ہے جس کی سائنسی بنیادیں ہیں۔ آئیے اس عمل کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سورج سے نکلنے والی روشنی میں قوس قزح کے تمام رنگ موجود ہوتے ہیں اور یہ روشنی تھوڑی مقدار میں الٹرا وائلٹ اور انفرا ریڈ شعاعوں پر بھی مشتمل ہوتی ہے۔ سورج کی سطح کا درجہ حرارت تقریباً 10,000 فارن ہائیٹ (یعنی 6000 ڈگری سینٹی گریڈ) ہے۔ اتنے زیادہ درجہ حرارت پر سورج سفید روشنی خارج کرتا ہے، جو زمین تک پہنچتی ہے۔ ہمارا کرۂ ہوائی سورج کی روشنی کے لیے تقریباً شفاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی زیادہ تر توانائی بغیر کسی رکاوٹ کے فضا سے گزر کر زمین تک پہنچ جاتی ہے اور زمین کی سطح کو گرم کرنا شروع کر دیتی ہے۔ خود ہوا براہ راست سورج کی شعاعوں سے زیادہ گرم نہیں ہوتی بلکہ زمین کے گرم ہونے کے بعد زمین سے خارج ہونے والی توانائی سے حرارت حاصل کرتی ہے۔ جب سورج افق پر نیچے ہوتا ہے، صبح یا شام کے وقت، تو اس کی شعاعیں ترچھی پڑتی ...

ڈیجیٹل دنیا: لڑکیوں کی ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی ضروری

ڈیجیٹل دنیا میں صنفی عدم مساوات کا خاتمہ کرنے کے لیے لڑکیوں کو ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی دینا ضروری ہے، اس کام کے لیے تعلیمی شعبے میں مزید سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ دنیا بھر میں پائی جانے والی ڈیجیٹل تفریق کے باعث ٹیکنالوجی کے میدان میں خواتین اور لڑکیوں کی کئی نسلوں کے پسماندہ رہ جانے کا خدشہ ہے۔ اس خدشہ کا اظہار ہنگامی حالات اور طویل بحرانوں میں تعلیم کی فراہمی پر اقوام متحدہ کے عالمی فنڈ 'ایجوکیشن کین ناٹ ویٹ' (تعلیم انتظار نہیں کر سکتی) کی ڈائریکٹر یاسمین شریف نے کیا ہے۔ انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشنز ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) یا معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کے شعبے میں لڑکیوں کے عالمی دن کے موقع پر انہوں نے کہا کہ مسلح تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور جبری نقل مکانی کا سامنا کرنے والے علاقوں میں یہ تقسیم اور بھی نمایاں ہے جسے ختم کرنے اور لڑکیوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں لڑکوں کے مساوی مواقع کی فراہمی کے لیے خاطر خواہ مالی وسائل کی دستیابی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس تبدیلی کے لیے تعلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے، لڑکیوں کو وہ تربیت، ہنر اور وسائل فراہم کیے جائیں جن کی انہیں ڈیجیٹل انقلاب کا...

کیا کائنات میں ہم جیسے اور بھی ہیں؟ زمین جیسے سیارے پر زندگی کے ممکنہ آثار

انسانی تاریخ میں زندگی کے سب سے بڑے سوالوں میں سے ایک یہ رہا ہے، کیا ہم اس وسیع کائنات میں اکیلے ہیں؟ قدیم زمانے سے ہی انسان نے آسمان کی وسعتوں میں جھانک کر اپنے جیسے کسی اور کے وجود کی تلاش کی ہے۔ جدید دور میں فلکیاتی سائنس نے اس تلاش کو ایک سائنسی بنیاد فراہم کی ہے اور حالیہ دنوں میں ایک اہم دریافت نے اس سوال کو ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنا دیا ہے، وہ ہے سیارہ کے2-18بی (K2-18b) پر زندگی کے ممکنہ آثار کی دریافت ہونا۔ ’کے2-18بی‘ ایک ایسا سیارہ ہے جو زمین سے تقریباً 124 نوری سال یعنی تقریباً 700 کھرب میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک سرخ بونے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے اور سائز کے اعتبار سے زمین سے ڈھائی گنا بڑا ہے۔ اس کی کمیت اور ساخت کے لحاظ سے یہ زمین اور نیپچون کے درمیان آتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ ایک ہائیسین ورلڈ (Hycean World) ہو سکتا ہے، یعنی ایسا سیارہ جس پر سمندر ہوں اور فضا میں ہائیڈروجن غالب ہو۔ یونیورسٹی آف کیمبرج کے سائنسدانوں نے ناسا کی جدید ترین جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کی مدد سے اس سیارے کی فضا کا تجزیہ کیا۔ یہ ٹیلی سکوپ اتنی حساس ہے کہ دور دراز سیاروں کی فضا سے گزرنے...

گوگل نے ڈیجیٹل اشتہارات میں غیر قانونی اجارہ داری قائم کی، امریکی عدالت کا فیصلہ

**واشنگٹن: امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ معروف ٹیکنالوجی کمپنی گوگل نے ڈیجیٹل اشتہارات کی مارکیٹ میں غیر قانونی طور پر اجارہ داری قائم کر کے ملک کے عدم اعتماد کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ فیصلہ امریکی محکمہ انصاف اور متعدد ریاستوں کے اس مقدمے کے تناظر میں سامنے آیا ہے جس میں گوگل پر الزام تھا کہ اس نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے آن لائن اشتہاری مارکیٹ پر قبضہ جما لیا ہے۔ ورجینیا کے مشرقی ضلع کی امریکی ضلعی عدالت کی طرف سے سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گوگل نے اپنے ایڈ ٹیک بزنس کے ذریعے ایسے حربے اپنائے جن سے پبلشرز، اشتہاری خریداروں اور بالآخر انٹرنیٹ صارفین کو نقصان پہنچا۔ عدالت نے واضح کیا کہ کمپنی کے طرز عمل سے "گوگل کے اشاعتی صارفین، مسابقتی عمل اور بالآخر، اوپن ویب پر اطلاعات کے صارفین متاثر ہوئے۔" محکمہ انصاف کی جانب سے جاری بیان میں اس فیصلے کو ڈیجیٹل اشتہارات کے میدان میں گوگل کی اجارہ داری کے خلاف تاریخی فتح قرار دیا گیا۔ امریکی اٹارنی جنرل پامیلا بونڈی نے کہا کہ "یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں، چاہے وہ ...

مصنوعی ذہانت کی پیش قدمی، سافٹ ویئر کی محدود ہوتی افادیت

ماضی میں جب صنعتی انقلاب آیا تو انسان نے پہلی بار یہ سیکھا کہ محض اپنے ہاتھوں اور جسمانی طاقت کے بجائے مشینوں کی مدد سے بھی بڑی سطح پر پیداوار ممکن ہے۔ پھر جب ڈیجیٹل انقلاب نے دستک دی تو دنیا کا رابطہ بدل گیا، معلومات کی ترسیل، لین دین، تعلیم، سیاست، معیشت، سب کچھ نئی شکل میں ڈھلنے لگا۔ اب جو انقلاب ہمارے دروازے پر آ چکا ہے، وہ نہ صرف پہلے دونوں انقلابات سے زیادہ تیز ہے بلکہ گہرے اور دور رس اثرات کا حامل بھی ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی کا انقلاب ہے، جو ہر شعبۂ حیات میں داخل ہو چکا ہے اور انسان کے ہر سوچنے، سمجھنے اور کرنے کے طریقے کو بدل رہا ہے۔ اب یہ سوال باقی نہیں رہا کہ اے آئی آئے گی یا نہیں، وہ آ چکی ہے۔ اصل سوال اب یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کتنے تیار ہیں؟ حال ہی میں اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹ مین کا بیان آیا کہ سافٹ ویئر انجینئروں کی نوکریاں خطرے میں ہیں اور انہیں اس تبدیلی کے لیے خود کو پہلے سے تیار کر لینا چاہیے۔ یہ صرف انجینئروں کی بات نہیں، دنیا بھر میں جہاں جہاں کوئی کام ایک خاص ترتیب، ایک مخصوص فارمولے یا طے شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر انجام دیا جاتا ہے، وہاں اے آئی کا عمل دخل...

یہ ترقی کس کے لئے سودمند ہوگی!

دنیا کی نظریں اس وقت امریکی صدر کی نئی ٹیرف پالیسی پر لگی ہوئی ہیں، مسلم دنیا کی نظریں قطر کے حماس اور نیتن یاہو سے رشتے پر گڑی ہوئی ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کی نظریں وقف ترمیمی بل کے مستقبل کو لے کر بے چینی سے انتظار کر رہی ہیں اور ہندوستانی عوام کی نظریں راہل گاندھی کی بہار یاترا اور احمد آباد اجلاس پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں یہ موضوعات انتہائی اہم ہیں اور ان کے اثرات دنیا کے کسی نہ کسی کونے پر نظر آئیں گے لیکن اگر ہم مستقبل کی بات کریں تو جس تیزی کے ساتھ دنیا میں سائنسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس نے آنکھیں ہوتے ہوئے بھی عام لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت نے پہلے ہی ایک بڑی تعداد کو بے روزگار کرنا شروع کر دیا ہے اور جس بڑی تعداد میں انسانی روبوٹس دنیا میں آ رہے ہیں اس نے سب کو حیرانی میں ڈال دیا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ سائنس میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں اس سے اب طے کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے کہ آگے کس راستے پر چلنا ہے، بہت ہی کنفیوژن ہے۔ یہ کنفیوژن اس لئے ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سفر کا آغاز ہے اور انسانی روبوٹس کس کس شعبہ میں اپنی دخل اندازی کرے گا اس کا کسی کو علم نہیں ہ...

گرمی اور رنگ کا تعلق: نیلا سب سے گرم، لال سب سے ٹھنڈا!

ہم سب جانتے ہیں کہ جب کسی چیز کو گرم کیا جاتا ہے تو اس سے روشنی یا ریڈی ایشن خارج ہوتی ہے۔ مثلاً جب کوئی لوہار لوہے کے سیاہ ٹکڑے کو بھٹی میں گرم کرتا ہے تو جیسے جیسے اس کا درجہ حرارت بڑھتا ہے، اس سے نارنجی، پھر لال اور آخر میں سفید رنگ کی روشنی نکلتی ہے۔ سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی چیز سے خارج ہونے والی روشنی کا اس کے درجہ حرارت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ بات عمومی مشاہدے کا حصہ ہے، لیکن اس کی سائنسی تفصیل کو جاننا بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اسی سمجھ نے نہ صرف ہمیں ستاروں کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کیں بلکہ بیسویں صدی کے کوانٹم انقلاب کی بنیاد بھی رکھی۔ جب کسی شے کو گرم کیا جاتا ہے تو وہ برقی مقناطیسی شعاعیں (ایکٹرومیگنیٹک ریڈیشن) خارج کرتی ہے۔ جتنا درجہ حرارت کم ہوگا، اتنی ہی زیادہ طول موج (ویو لینتھ) کی شعاعیں خارج ہوں گی۔ مثلاً، اگر کوئی شے بہت ٹھنڈی ہو اور ہم اسے گرم کریں تو وہ ریڈیو ویوز خارج کرے گی۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری کائنات کا اوسط درجہ حرارت تقریباً 3 کیلون ہے، جس کے باعث مائیکرو ویوز ہر سمت خارج ہو رہی ہیں۔ یہ مائیکرو ویوز 1964 میں حادثاتی طور پر د...