نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اے آئی کے ذریعے ٹرانس جینڈر کے حوالے سے رویے کو بدلا جا سکتا ہے؟

ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر ریس کا گھوڑا اپنی منزل کی جانب برق رفتاری سے دوڑ رہا ہے۔ مگر ٹرانس جینڈرز وہ واحد طبقہ ہے، جس کو اس ریس میں مقابلہ تو دور کی بات شامل ہونے کا حق بھی بامشکل سے ہی ملتا ہے۔ ٹرانس جینڈرز کو عموماً پاکستانی معاشرے میں ایسی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے گویا وہ معاشرے کا حصہ نہ ہوں، یا یوں کہہ لیجیے کہ معاشرہ انہیں اپنا حصہ تسلیم ہی نہیں کرتا۔

پاکستان کے شہر ملتان سے تعلق رکھنے والی 19 برس کی ظرین راجپوت ایک ٹرانس جینڈر یوٹیوبر ہیں، جنہوں نے تقریبا 5 سالوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد حال ہی میں "بیسٹ انڑرپرینیور" ایوارڈ اپنے نام کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ورچوئل ٹرانس جینڈرز انفلوئینسر کی ضرورت اس طرح محسوس ہوتی ہے کہ وہ ایک ڈمی انفلوئینسر ہوگا، جس کی دماغی حالت کو کوئی بھی متاثر نہیں کر سکتا، اسے قتل ہو جانے کا خوف نہیں ہوگا، اسے یہ ڈر نہیں ہوگا کہ کوئی کچھ غلط کہہ دے گا، نہ ہی وہ ہمت ہارے گا، تو اس طرح کے ڈمی انفلوئینسر ٹرانس جینڈر سے کمیونٹی کی ڈٹ کر نمائندگی کے علاوہ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی، جس سے ٹرانس جینڈر انفلوئینسر کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ معاشرے کے منفی رویے کو بدلا جا سکتا ہے۔

ظرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس محنت کے میٹھے پھل کو پانے کے لیے انہوں نے زمانے کی تلخیاں اور گالیاں تک برداشت کی ہیں، ''اگر میں کسی عوامی جگہ پر اپنے وی لاگ میں اردگرد کا ماحول دکھانے کی کوشش کروں تو لوگوں کی طنز بھری نگاہیں مجھ سے ہٹتی نہیں ہیں، صرف یہی نہیں اس پر جو جملے کسے جاتے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ذہنی اذیت کا باعث بنتے ہیں، کہا جاتا یے کہ یہ ہیجڑا ہے اسے تو بھیک مانگنی چاہیے یا ڈانس کرنا چاہیے۔‘‘

انہوں نے اپنے پہلے وی لاگ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا، ''جب میں نے اپنا پہلا وی لاگ اپلوڈ کیا تو میرے اپنے گھر والوں نے سب سے پہلے کہا کہ ٹرانس جینڈر پیدا ہو کر تم نے ہمیں معاشرے میں شرمندہ کیا ہے۔ مجھے تو گھر سے ہی سب سے پہلے دھتکارا گیا۔ باقی لوگوں کے کمنٹس اتنے ہراسانی پر مبنی ہوتے ہیں اور ایسی باتیں جن کا تکلیف گالی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔"

ٹرانس جینڈرز اور مرد و خواتین کے انفلوئینسر ہونے کے فرق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ظرین نے کہا کہ لفظ انفلوئینسر کو ٹرانس جینڈرز کے ساتھ معاشرہ اب تک قبول نہیں کر پایا، اس کی ایک بڑی وجہ ٹرانس جینڈر انفلوئینسرز کی تعداد میں کمی ہے، ''انفلوئینسرز کی پارٹیوں میں مرد اور خواتین کے علاوہ ٹرانس جینڈر انفلوئینسرز کو دعوت تو دی جاتی ہے۔ لیکن اس کا بھیانک چہرہ بعد میں اس صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ پھر وہی لوگ کہتے ہیں آپ ہمیں وی لاگ میں مت لائیے گا، ہمارے ساتھ تصویر مت لگائیے گا۔‘‘

کراچی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر میسم رضا حمانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، ''ہماری روزمرہ کی زندگیوں میں ٹیکنالوجی کا اثر ہمارے خیال سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹیکنالوجی میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے رویوں کو اپنے سانچے میں ڈھال کر بدل دے، اس کی سب سے بڑی مثال انسٹاگرام پر انفلوئینسرز ہیں، انہیں انفلوئینسر کہا ہی اس لیے جاتا ہے کیونکہ وہ عوامی رویے کو کافی حد تک بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘‘

انہوں نے اس ٹیکنالوجی کے کچھ خطرناک پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانس جینڈر ہمارے معاشرے میں ویسے ہی ایک حساس کمیونٹی ہے اور اگر کوئی ورچوئل ٹرانس جینڈرز انفلوئینسر بنا کر اس کا غلط استعمال کرے تو اس کمیونٹی کے لیے بہت سی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں، ''ٹیکنالوجی کا کنٹرول ہونا بہت ضروری ہے ورنہ ٹیکنالوجی کا منفی استعمال بہت سے طوفان برپا کر سکتا ہے۔‘‘

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور انسانی حقوق کی نامور کارکن نگہت داد کہتی ہیں کہ ٹرانس جینڈرز کے ڈیجیٹل حقوق کی بات کی جائے تو ٹرانس جینڈرز اپنے آن لائن حق کے لیے خاص طور پر اگر اپنی شناخت کے حوالے سے آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں گالم گلوچ، اور نفرت انگیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا یے۔ کیونکہ انہیں ٹرانس جینڈر ہونے کہ وجہ سے سنجیدہ ہی نہیں لیا جاتا، ''ان کے ساتھ بالکل ایسا ہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے جیسے شروعات میں خواتین کے ساتھ سوشل میڈیا پر کیا جاتا تھا۔ جن کو اب معاشرہ کافی حد تک قبول کر چکا ہے۔ مگر اب اس چکی میں ٹرانس جینڈرز پس رہے ہیں۔‘‘

نگہت داد مزید کہتی ہے ٹیکنالوجی میں جنس کی تفریق یقینی طور پر آئے گی جب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو استعمال کر کے کچھ بھی تخلیق کرنے والے افراد اسی معاشرے کا حصہ ہوں گے۔ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں بھی اسی لیے ہے کہ کیا اے آئی معاشرے کی اخلاقیات کو مد نظر رکھ کر پراڈکٹس بنا رہا ہے۔ اس لیے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ان اے آئی ماڈلز کو بنانے والوں کو اس بات کا کتنا علم ہے کہ مختلف جنسی شناخت اور ان کی حساسیت کیا ہے۔ ان تمام مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

عائشہ مغل پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر لیکچرار ہیں اور سوشل میڈیا پر ٹرانس جینڈرز کی نمائندگی بھی کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ٹرانس جینڈر کو ہمیشہ سے ایک الگ ہی مخلوق سمجھا گیا ہے، ''مجھ پر اور میری کمیونٹی کی دیگر ساتھیوں پر سوشل میڈیا کے ذریعے بہت بار ذاتی حملے کیے گئے ہیں، اور گزشتہ دو برسوں سے سوشل میڈیا پر ٹرانس جینڈرز کی موجودگی کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چند ٹرانس جینڈر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے مسائل اور کچھ بے رحم لوگوں کے بھید کھولنے لگے تھے۔‘‘

عائشہ مغل مزید کہتی ہیں سوشل میڈیاکا صحیح استعمال بہت کم ٹرانس جینڈر جانتے ہیں اور وہ بھی ہراساں کیے جانے کے ڈر سے استعمال کرنا چھوڑ دیتے ہیں، اور یہی وجہ ہے ان کی تعداد سوشل میڈیا پر آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

ان کے بقول چند ایک ٹرانسجیندر ز ایسے بھی ہیں، جو خاصی پڑھی لکھی اور بہترین جاب کرر ہی ہیں لیکن ایسے ٹرانس جینڈرز کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، ''لوگ اکثر ٹرانس جینڈرز پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارا طبقہ بھیک مانگتا ہے، ناچ گانا کرتا ہے اور بعض غلط کام بھی کرتے ہیں لیکن اب ہماری برادری سرا آہستہ آہستہ ان کاموں کو چھوڑ رہی ہے کیوں کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح محنت مزدوری، نوکری اور کسی ہنرمندی کے بل بوتے پر روزی کمانا چاہتی ہے مگر اس راہ کو اپنانے میں سب سے بڑا مسئلہ ٹرانس جینڈر ز کا ان پڑھ ہونا ہے۔ اس لیے کسی بھی پلیٹ فارم پر ایک مضبوط کمیونٹی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ کیونکہ تعلیم اور ہنر کے ذریعے کسی کو بھی بآسانی مات دی جا سکتی ہے۔‘‘

ٹرانس جینڈر ز کو شکایت ہے کہ دنیا کتنی بھی بدل جائے، لیکن وہ جس جگہ بھی جائیں انہیں لوگوں کے طنزیہ اور ذومعنی فقروں اور تحقیر آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/Z5xWiqs

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...