نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

آرین کہاں سے آئے، ڈی این آئے کی زبانی... وصی حیدر

(39ویں قسط)

ایشیا کی چراگاہوں (Steppe) سے تقریباً 2000 قبل مسیح سے ایک ہزار سال تک اچھی زرخیز جگہوں کی تلاش میں لوگ جنوبی ایشیا لگاتار آتے رہے۔ ایسا بلکل بھی نہیں کے وہ لوگ فوج لے کر آئے ہوں اور انہوں نے ہندوستان کو فتح کیا ہو اور ہڑپہ کی تہذیب کو ختم کیا ہو۔ ہڑپہ کی کھدایوں میں کسی طرح کی لڑائیوں کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ ان نتیجوں پر پہنچنے کے سلسلہ میں 2018 میں ایک بہت تفصیلی تحقیقاتی مضمون چھپا، جس کا سب سے اہم کام پورے مرکزی اور جنوبی ایشیا کے پرانے انسانی ڈھانچوں کے ڈی این آئے تحقیقات سے ان کے رشتوں کو معلوم کرنا تھا۔ تو آخر اس سے کیا نئی دریافت حاصل ہوئی۔

سب سے پہلی دریافت تو یہ کہ کزاخستان سے جنوبی ایشیا اور خاص کر ترکمنستان، ازبکستان اور تاجکستان کی طرف لوگ سب سے پہلے 2100 قبل مسیح کے اس پاس گئے اور اس کے بعد تقریباً 1000 سال تک یہ لوگ جنوبی ایشیا آتے رہے۔ اس ہجرت میں یہ لوگ شمالی افغانستان، ازبکستان، تاجکستان اور جنوبی ایشیا آئے۔ اپنے اس سفر میں وہ BMAC تہذیب (جو 2300 سے 1700 قبل مسیح تک رہی Oxus ندی کے کنارے بسی تھی) پر اپنا اثر چھوڑا، لیکن انہوں نے ہندوستان پہنچ کر ہڑپہ کی ختم ہوتی تہذیب کے لوگوں میں گھل مل کر ایک نئی تہذیب کو جنم دیا، جو اب ہندوستان کی دو بڑی دھاروں میں سے ایک ہے۔ دوسری اہم دھارا وہ ہے جو ہڑپہ کے لوگوں کی جنوبی ہندوستان کی طرف ہجرت کے بعد وہاں پہلے سے بسے افریقہ سے آئے ہوئے ہندوستانیوں میں گھل مل کر پروان چڑھی اور انہوں نے دراوڑ زبانوں اور ایک انفرادی کلچر کو جنم دیا۔ آنے والے آرین اور ہڑپہ کے لوگوں نے مل کر انڈو یوروپین زبانوں اور ایک نئی تہذیب کو بنایا۔

تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کے 2100 قبل مسیح سے پہلے BMAC کے لوگوں میں Steppe کے ڈی این آئے کی ملاوٹ بلکل بھی نہیں ہے پر اس کے بعد 1700 قبل مسیح تک نہ صرف BMAC میں بلکہ اس کے چاروں طرف لوگوں میں Steppe کے ڈی این آئے موجود ہیں۔  اس دریافت کا پہلے ذکر ہو چکا ہے کے موجودہ ایران کے شہر سوختہ میں تین ایسے ڈھانچنے ملے جو 3100 سے 2200 قبل مسیح کے ہیں اور ان کا تعلق ہڑپہ کے علاقہ سے ہے یعنی یہ لوگ ہڑپہ سے ایران گئے اور وہاں ختم ہوئے۔

یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہڑپہ کے لوگوں کا ایران کے زخروز علاقہ کی آبادیوں سے گہرا تجارتی اور کلچرل تعلق تھا۔ ان تینوں ڈھانچوں میں 14-42 فیصدی جینز افریقہ سے آئے ہوئے پہلے ہندوستانیوں کے اور باقی ایرانی زخروز علاقے کے لوگوں کے ہیں، ان میں ایشیا کے Steppe کے لوگوں کے جینزکی کوئی ملاوٹ نہیں ہے۔ اس دریافت سے بھی یہی ثابت ہوا کے steppe سے آنے والے آرین 2100 قبل مسیح کے بعد ہی ہندوستان آئے۔

لیکن اس سلسلے کی فیصلہ کن معلومات پاکستان کے سوات وادی کی انسانی ڈھانچوں کی ڈی این آئے تحقیقات کے نتیجے ہیں۔ یہ ڈھانچے 1200 قبل مسیح کے ہیں۔ ان کے ڈی این اے ان پرانے تین ہندوستانیوں جیسے ہیں (جو ایران میں پائے گئے ) لیکن ایک بہت اہم فرق یہ ہے کہ یہ ان سے ایک ہزار سال بعد کے ہیں اور ان میں steppe سے آئے ہوئے آرین کے 22 فیصدی جینز کی ملاوٹ ہے۔ یعنی اس ایک ہزار سال میں آنے والے آرین مقامی آبادی میں گھل مل چکے تھے۔ اس تحقیقاتی مقالہ میں اس کا بھی ذکر ہے کے موجودہ ہندوستان میں انڈو یوروپین بولنے والے خاص پجاری، سنکرت اور ویدک کلچر کے رکھوالے لوگوں میں steppe سے آئے ہوئے آرینس کے جینز کی ملاوٹ اور تمام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ Steppe  کے یہ لوگ یمنایا کہلاتے تھے۔ یہی لوگ 3000 قبل مسیح کے آس پاس یوروپ کی طرف بھی گئے۔ ان کے بارے میں کچھ اور تفصیل آگے کچھ قسطوں میں ہوگی۔

ان تحقیقات کی روشنی میں ہماری موجودہ ہندوستانی آبادی کچھ اس طرح کی ہے۔ پہلا گروپ افریقہ سے آئے ہوئے پہلے ہوموسیپینس اور ہڑپا کے لوگ جنمیں ایران کے زگروز کے لوگوں کے جینز کی ملاوٹ: ان سب سے ہندوستان کے دراوڑ زبانیں بولنے والے لوگ بنے۔ دوسرا بڑا گروپ ہڑپا کے لوگوں میں باہر سے آنے والے آرین کے گھل مل کر انڈو یوروپین زبانیں بولنے والے لوگ۔ اس کے علاوہ اور بھی چھوٹے گروپ جو جنوب مشرق سے آئے۔ مختصراً اصل ہندوستانی کی تلاش فضول ہے۔ یہ حقیقت نہ صرف ہمارے لیے سچ ہے بلکہ موجودہ دنیا کے ہر ملک کی آبادی کئی طرح کی رنگا و رنگ دھاراوں کی ملاوٹ ہے جیسے قوس قزح کے خوبصورت رنگ۔

 اگلی قسط میں یمنایا (Ymnaya) یعنی ہندوستان آنے والے آرین کا ذکر ہوگا۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/NeqVAp3

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...