نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

آکسیجن کی کہانی: فطرت کا خاموش تحفہ اور ہماری بقا کی بنیاد

یہ مضمون آکسیجن سے متعلق کچھ ایسی باتوں پر روشنی ڈالے گا جو شاید ہر ایک کو معلوم نہ ہوں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ آکسیجن ہماری سانس کے لیے ناگزیر ہے لیکن شاید یہ نہ معلوم ہو کہ ہماری سانس میں جانے والی ہوا کا بیشتر حصہ دراصل نائٹروجن پر مشتمل ہوتا ہے، جو ایک بے اثر گیس ہے۔ یہ گیس جسم میں داخل ہو کر بغیر کسی استعمال کے واپس خارج ہو جاتی ہے، جبکہ سانس کے ذریعے اندر جانے والی آکسیجن کا صرف 5 فیصد ہی جسم میں استعمال ہوتا ہے۔

نظامِ شمسی میں زمین واحد سیارہ ہے جس کے گرد ایسا فضائی غلاف ہے جو زندگی کے لیے موزوں ہے۔ اس فضا میں تقریباً 78 فیصد نائٹروجن، 21 فیصد آکسیجن اور صرف ایک فیصد دیگر گیسیں شامل ہیں۔ یعنی آکسیجن صرف فضا کا پانچواں حصہ ہے۔ زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے یہ فضائی غلاف زمین کے گرد قائم ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غلاف لا متناہی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہوا کا 99 فیصد حصہ زمین سے صرف 100 کلومیٹر کی بلندی تک محدود ہے۔ اس حد کو ’کرمان لائن‘ کہا جاتا ہے۔ اگر زمین کو ایک سنترے کے برابر مانا جائے تو فضائی غلاف صرف اس کے چھلکے کے برابر ہوگا۔

سورج کی روشنی میں پیڑ پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے آکسیجن اور اپنی غذا تیار کرتے ہیں۔ اس عمل کو ’فوٹو سنتھیسس‘ کہا جاتا ہے۔ ہماری بقا کے لیے درکار ساری آکسیجن پیڑ پودے ہی پیدا کرتے ہیں۔ آکسیجن ایک فعال عنصر ہے جو آسانی سے دوسرے عناصر کے ساتھ مل کر آکسائیڈ مرکبات بناتی ہے۔ اگر پیڑ پودے مسلسل آکسیجن نہ بنائیں تو فضا کی ساری آکسیجن جلد ہی مختلف مرکبات میں بدل جائے گی اور سانس لینے کے لیے کچھ باقی نہ بچے گا۔ اس سے ایک دلچسپ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کسی سیارے پر آکسیجن موجود ہے تو وہاں پیڑ پودے بھی ضرور ہوں گے۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آکسیجن میں آگ لگتی ہے، شاید اس وجہ سے کہ اسپتالوں میں آکسیجن سلنڈر پر ’ہوشیار! آگ لگنے کا خطرہ‘ لکھا ہوتا ہے اور وہاں سگریٹ نوشی کی سخت ممانعت ہوتی ہے۔ اگر کوئی آکسیجن سے بھرے کمرے میں سگریٹ جلائے تو وہ چند لمحوں میں راکھ ہو سکتی ہے لیکن کمرے کی گیس خود آگ نہیں پکڑتی۔

امریکہ کے قمری مشن اپولو-1 میں بھی اسی نوعت کا حادثہ پیش آیا تھا۔ یہ خلائی راکٹ اپنے ساتھ 3 خلا نوردوں کو چاند کی طرف لے جانے کے لیے تیار تھا لیکن تبھی اس میں آگ لگ گئی اور تینوں خلا نورد جل کر ہلاک ہو گئے۔ چونکہ اس مشن میں انسان موجود تھے، اس لیے ان کے لیے سانس لینے کا بندوبست بھی ضروری تھا۔

عام فضا میں نائٹروجن کی موجودگی کی وجہ سے اگر مکمل ہوا کو سلنڈر میں بھرا جاتا تو نائٹروجن جیسی بے کار گیس کی وجہ سے نہ صرف وزن بڑھتا بلکہ سلنڈر کو بھی بے حد مضبوط بنانا پڑتا۔ اس مسئلے کا حل سائنس دانوں نے یہ نکالا کہ صرف خالص آکسیجن لی جائے لیکن اسی خالص آکسیجن میں بجلی کے تاروں میں چنگاری پیدا ہوئی، جس سے پلاسٹک میں آگ لگی اور وہ آگ خلا نوردوں تک جا پہنچی، نتیجتاً تینوں کی موت واقع ہوئی۔ اس حادثے کے بعد بہت سے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ آکسیجن میں آگ لگتی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آکسیجن خود نہیں جلتی، بلکہ جلنے میں مدد دیتی ہے۔

اگر ہوا میں آکسیجن کی مقدار 21 فیصد کے بجائے 30 فیصد ہو جائے تو کسی بھی جنگل میں لگنے والی آگ خود بخود نہیں بجھے گی، جب تک آکسیجن کی مقدار دوبارہ کم نہ ہو جائے۔ قدرت نے آکسیجن کی مقدار کو اعتدال پر رکھنے کا خودکار نظام قائم کیا ہے۔

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ انسان نے اپنی خودغرضی سے دنیا کے موسم کو تباہ کیا اور کئی جانداروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔ انسانوں اور پیڑ پودوں سے بھی کروڑوں سال پہلے زمین پر سب سے بڑی تبدیلی ایک یک خلوی جاندار ’سائنو بیکٹیریا‘ نے پیدا کی۔ زندگی کی ابتدا تقریباً 3 ارب سال قبل گرم پانی میں موجود یک خلوی بیکٹیریا سے ہوئی۔ ان میں ایک اہم گروہ ’سائنو بیکٹیریا‘ کا ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو استعمال کر کے آکسیجن پیدا کرتا تھا۔ یہی وہ جاندار تھے جنہوں نے زمین کے ماحول اور فضا کی ترکیب کو مکمل طور پر بدل ڈالا۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں وہ تمام جاندار جن کے لیے زیادہ آکسیجن نقصان دہ تھی، ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے لیکن اسی تبدیلی نے نئی قسم کی زندگیوں کو پنپنے کا موقع دیا جن کے لیے آکسیجن ضروری تھی۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/13Ywdfm

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہوسکتا ہے کہ دومکیت لیونارڈ نے زہرہ پر الکا شاور کو جنم دیا ہو۔

  الزبتھ ہول کی طرف سے تقریباً 6 گھنٹے پہلے شائع ہوا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کا قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں دومکیت کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دومکیت لیونارڈ اس ہفتے کے آخر میں وینس پر سیارے پر دومکیت کے نسبتاً قریب پہنچنے کے دوران الکا کی بارش کر سکتا ہے۔ سرکاری طور پر دومکیت C/2021 A1 کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے دومکیت لیونارڈ بھی کہا جاتا ہے، جنوری میں ایریزونا میں ماؤنٹ لیمون انفراریڈ آبزرویٹری کے ماہر فلکیات گریگوری جے لیونارڈ نے دریافت کیا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں زہرہ کا اس کے قریب سے گزرنے سے اسکائی واچرز کو شام کے آسمان میں ایک مارکر ملتا ہے تاکہ اس دومکیت کو تلاش کیا جا سکے، جو زمین سے دوربین کی نمائش پر ہے اور شاید اس قدر روشن ہو کہ صاف، سیاہ آسمان کے نیچے ننگی آنکھ کو نظر آ سکے۔ وینس پر، اگرچہ، کہانی مختلف ہے. سیارے اور دومکیت کا مدار ایک دوسرے کے 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کے اندر آئے گا، جو زمین کے اوپر جیو سنکرونس سیٹلائٹ کے مداری راستے کے برابر ہے۔ دومکیت لیونارڈ ستارہ نگاروں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا دومکیت ہے کیونکہ اس...

حساس ڈیٹا افشا کرنے پر حکومت کی کارروائی، متعدد ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں

مرکزی حکومت نے شہریوں کا حساس ڈیٹا جیسے آدھار اور پین کی تفصیلات ظاہر کرنے پر متعدد ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر دیا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت نے اس اقدام کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پورٹلز نے شہریوں کا نجی ڈیٹا عام کر دیا تھا، جس پر کاروائی کے طور پر ان ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔ حساس معلومات کا افشا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ڈیٹا کی حفاظت اور شہریوں کی پرائیویسی کے خلاف ہے۔ یونیک آئیڈینٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں آدھار ایکٹ 2016 کی دفعہ 29(4) کے تحت ان ویب سائٹس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، کسی بھی شخص کی آدھار معلومات کو عام طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان ویب سائٹس کی سیکورٹی خامیوں کا انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) نے تجزیہ کیا اور نشاندہی کی کہ ان ویب سائٹس میں سیکورٹی کی کئی خامیاں ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ویب سائٹس کے مالکان کو رہنمائی فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں۔ ساتھ ہی سائبر ایجنسیز کی طرف سے ت...

سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر روزانہ اوسطاً 9 ہزار آن لائن حملے: رپورٹ

نئی دہلی: سال 2023 میں ہندوستانی کمپنیوں پر سائبر مجرموں کی طرف سے روزانہ اوسطاً 9000 سائبر حملے کیے گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ سائبر سیکورٹی کمپنی کاسپرسکی کے مطابق 2023 میں جنوری سے دسمبر کے درمیان سائبر مجرموں کی جانب سے ہندوستانی کمپنیوں پر 30 لاکھ سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس میں 2022 کے مقابلے میں 47 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کاسپرسکی انڈیا کے جنرل منیجر جے دیپ سنگھ نے کہا کہ حکومت مقامی ڈیجیٹل معیشت اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آن لائن حملوں کے پیش نظر ہندوستانی کمپنیوں کو سائبر سیکورٹی کو ترجیح کے طور پر لینا ہوگا۔ مزید کہا کہ اگر کمپنیاں سائبر سیکورٹی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتی ہیں، تو وہ ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کو پوری طرح سے حاصل نہیں کر پائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فعال اقدامات کیے جائیں اور ممکنہ سائبر خطرات سے بچایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویب پر مبنی خطرات اور آن لائن حملے سائبر سیکورٹی کے تحت ایک زمرہ ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے سائبر مجرم کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آخری صارف یا ویب سروس ڈویلپر/آپریٹر کی...